آپ کے جسم کے اعضا کام کرتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں، سلامت اور فعال اعضا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں ان نعمتوں کی قدر وہی جانتا ہے جن کے پاس یہ نہیں ہوتے یا پھر ان میں کوئی نقص ہوتا ہے، میں اپنی ہی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
ایک رات کے پچھلے پہر درد اٹھتا ہے، ایسا درد کہ جس کی شدت صرف میں ہی محسوس کرسکتا ہوں۔ یہ درد ایک داڑھ کا درد تھا۔ داڑھ میں کیڑا تھا جو مجھے طرح طرح سے پریشان کرتا، دن کے ہنگاموں میں اطمینان سے بیٹھ جاتا اور رات کی خاموشیوں میں جب دندان ساز خواب و راحت کے مزے میں سرشار ہوتے اور دوا خانے بند….
بے قرار ہو کر اٹھ بیٹھتا، ایک دن جبکہ میرے صبر کا پیمانہ بالکل لبریز ہوگیا تو میں ایک دن دندان ساز کے پاس گیا اور کہا اس داڑھ کو نکال دیجئے، اس نے نیند کی لذت مجھ پر حرام کررکھی ہے اور میرے رات کے سکون و اطمینان کو آہ و کراہ میں بدل دیا ہے“
ڈاکٹر نے اپنا سر ہلایا اور جواب دیا” جہالت ہوگی اگر ہم نے داڑھ کو نکال دیا جبکہ اس کا علاج ہوسکتا ہے“
اس نے داڑھ کو اِدھر ادھر سے کھرچنا شروع کیا اور اس کی جڑوں کو صاف کردیا، عجیب عجیب طریقوں سے روگ کو دور کرنے کے بعد جب اسے یقین ہوگیا کہ داڑھ میں اب ایک کیڑا بھی باقی نہیں رہا تو اس کے سوراخوں کوایک خاص قسم کے سونے سے بھردیا اور فخر آمیز لہجے میں کہنے لگا
” اب یہ تمہاری داڑھ تندرست داڑھوں سے زیادہ مضبوط ہوگئی“، میں نے تائید کی اور اس کی جیب روپوں سے بھر کر خوشی خوشی چلاآیا لیکن ابھی ایک ہفتہ گزرنے نہ پایا تھا کہ کم بخت داڑھ میں پھر تکلیف شروع اور اس نے میرے روح کے نغموں کو پھر قریب المرگ لوگوں کی خرخراہٹ اور دوزخ کی چیخ و پکار سے بدل دیا، اب میں دوسرے ڈاکٹر کے پاس گیا اور محتاط لہجے میں اسے کہا
”اس خطرناک سنہری داڑھ کو نکال پھینکئے…. تکلف بالکل نہ کیجئے گا اس لیے کہ کنکریاں چبانے والا انہیں شمار کرنیوالوں سے مختلف ہوتا ہے۔“
ڈاکٹر نے داڑھ نکال دی وہ گھڑی اگرچہ دردو تکلیف کی بنا پر بڑی ہولناک تھی لیکن در حقیقت مبارک تھی، داڑھ نکال دینے اور اچھی طرح دیکھ بھال کرلینے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا…. کیڑوں نے اس داڑھ میں اچھی طرح جڑ پکڑ لی تھی اور اس کے اچھے ہونے کی کوئی امید نہ تھی۔
اب میرے لیے سکون ہے جو مرضی کھاؤں، سخت چیزیں بھی کھاسکتا ہوں اور نرم بھی۔ گوشت کھانے بھی کوئی مسئلہ نہیں اور چنے چبانے میں بھی کوئی دقت نہیں۔ ڈاکٹر اور حکماء کہتے ہیں کہ کھانا ہمیشہ چبا کر کھانا چاہیے اس سے معدے کو کم محنت کرنا پڑتی ہے اور کھانا بھی جلد ہضم ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیں: رشتہ برائے فروخت ہے!
گھر ہو یا دفتر، کھیل کا میدان ہویا جنگی مورچہ، حکومتی میٹنگ ہویا پھر کوئی پریس بریفنگ۔ آپ نے اکثر لوگوں کو منہ ہلاتے دیکھا ہوگا۔ یا پھر کبھی کسی جانور کو دیکھا ہوکہ وہ چارہ کھاتے ہوئے تیزی سے منہ ہلا رہا ہوتا ہے جسے عام زبان میں ’جگالی‘ کہتے ہیں۔ یہ جگالی جانوروں کے معدے کو فٹ رکھتی ہے اور کھانا بھی اچھی طرح ہضم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح یہ لوگ بھی ’جگالی‘ کرتے پائے جاتے ہیں، کچھ لوگ منہ میں کوئی میوہ، ببل گم یا کوئی اور نرم چیز لیے چبا رہے ہوتے ہیں، حقیقت میں یہ لوگ اپنے معدے کی بھوک اور
دماغ کو فعال رکھنے کے لیے کررہے ہوتے ہیں تاکہ حاضر دماغی سے کام کرسکیں۔ یقین مانیں یہ دنیا چبانے والوں کی ہے۔
نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر