اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل کی غذائی قلت کی پالیسی ہوتی تو غزہ میں آج کوئی بھی زندہ نہ بچتا، لاکھوں پیغامات اور کالز کے ذریعے شہریوں کو خبردار کیا گیا کہ خطرناک راستوں سے نکل جائیں، جب کہ سینکڑوں امدادی ٹرک غزہ لےکر جا چکے ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ ان کے پاس حماس کو شکست دینے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ غزہ کا 70 سے 75 فیصد حصہ اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں ہے، مگر دو اہم مقامات اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں، جن میں غزہ شہر اور ایک مرکزی کیمپس شامل ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ جنگ ختم کرنے کا بہترین طریقہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ اسرائیل شہریوں کو محفوظ مقامات تک جانے کی اجازت دے گا، جہاں خوراک اور طبی امداد فراہم کی جائے گی۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نے عالمی میڈیا کی غزہ جنگ سے متعلق کوریج کو حماس کا پروپیگنڈا قرار دیا۔ انہوں نے ایک اخبار کے فرنٹ پیج پر شائع بھوکے اور بیمار بچے کی تصویر کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت نیویارک ٹائمز کے خلاف کیس کر رہی ہے۔ بچے کی والدہ اور بھائی صحت مند ہیں اور اخبار نے بعد میں اس کی تصحیح بھی شائع کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کی پالیسی واقعی غذائی قلت پیدا کرنے کی ہوتی تو دو سالہ جنگ کے بعد غزہ میں کوئی زندہ نہ بچتا۔ لاکھوں پیغامات اور کالز کے ذریعے شہریوں کو خبردار کیا گیا کہ خطرناک راستوں سے نکل جائیں، جب کہ سینکڑوں امدادی ٹرک غزہ لےکر جا چکے ہیں۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں رہنا نہیں چاہتا بلکہ صرف یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ حماس وہاں دوبارہ قائم نہ ہو۔ اگر اسرائیل ہتھیار ڈال دیے تو حماس تمام یرغمالیوں کو واپس لے کر دوبارہ متحد ہو جائے گی۔ غزہ میں ایک نئی عبوری اتھارٹی کے قیام کے لیے کئی امیدواروں پر غور جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غذائی بحران کی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ خوراک کی تقسیم کے مقامات پر فائرنگ حماس نے کی، جب کہ امدادی سپلائی بھی حماس نے لوٹی۔ جب کہ حماس ان الزامات کی بارہا تردید کر چکی ہے۔
مزید یہ کہ سی این این اور رائٹرز کے مطابق امریکی حکومت کے حالیہ جائزے میں ایسے شواہد نہیں ملے کہ غزہ میں منظم طور پر خوراک کی امداد کو لوٹا گیا ہو۔
لازمی پڑھیں: فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا: ‘پاکستان-انڈیا جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کے مشکور ہیں’
واضح رہے کہ یہ پریس کانفرنس ایسے وقت میں کی گئی جب غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کی منظوری کے بعد اسرائیل میں عوامی سطح پر نتن یاہو کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر 2023 میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والے حملے کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 60 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں کثیر تعداد بچوں عورتوں کی ہے۔