Follw Us on:

قائد اعظم سے شہباز شریف تک، پاکستان کے 78 سال: وہ راز جو قوم سے چھپائے گئے

اظہر تھراج
اظہر تھراج
Whatsapp image 2025 08 13 at 23.54.21
ملک نے آزادی کے بعد سے اب تک کیا حاصل کیا اور کیا کھو دیا۔ ( فائل فوٹو)

 پاکستان کی 78 ویں سالگرہ پر یہ سوال ایک بار پھر گونج رہا ہے کہ ملک نے آزادی کے بعد سے اب تک کیا حاصل کیا اور کیا کھو دیا۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط یہ سفر کامیابیوں، ناکامیوں، امیدوں اور مایوسیوں کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے۔
قیام پاکستان کے بعد سے ملک نے بارہا جمہوریت اور آمریت کے درمیان جھولتے ہوئے اپنے سیاسی سفر کو جاری رکھا۔ 1973ء کا آئین ایک سنگ میل ضرور تھا مگر سیاسی عدم استحکام، منتخب حکومتوں کی قبل از وقت برطرفیاں اور عدالتی و عسکری مداخلت نے نظام کو کمزور کردیا۔ 

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں معاشی استحکام کے کچھ مواقع پیدا ہوئے مگر پالیسیوں کے تسلسل کی کمی نے دیرپا ترقی کی راہ مسدود رکھی۔


ملک نے ایٹمی طاقت بننے، سی پیک جیسے منصوبوں کی شروعات اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بعض ادوار میں ریکارڈ اضافے جیسی کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن آئی ایم ایف پروگرامز پر بار بار انحصار، مہنگائی، کرنسی کی گراوٹ اور صنعتی زوال نے معاشی بنیادوں کو کمزور رکھا۔ درآمدات پر انحصار، پیداواری لاگت میں اضافہ اور برآمدات میں محدود تنوع آج بھی بڑے چیلنجز ہیں۔


تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا بحران معاشی نہیں بلکہ اخلاقی و سماجی ہے۔ بدعنوانی، اقربا پروری، قانون سے بالاتر رویے اور لسانی و گروہی تعصبات نے قومی وحدت کو متاثر کیا۔ مذہبی قیادت اصلاحِ اخلاق کو اپنا بنیادی ایجنڈا نہ بنا سکی۔ جب کہ معاشرہ تنقیدی سوچ اور ذمہ دار شہری شعور میں پیچھے رہ گیا۔

Atomic power


قیام کے بعد ابتدائی دہائیوں میں تعلیم تک رسائی نسبتاً آسان تھی، مگر نجی شعبے کے غلبے اور سرکاری اداروں کی زبوں حالی نے معیاری تعلیم عام شہری کی پہنچ سے دور کر دی۔ اردو زبان اور قومی ثقافت پس منظر میں چلی گئی، جب کہ انگریزی میڈیم تعلیمی ڈھانچے نے ایک سماجی و لسانی خلیج پیدا کر دی۔


ابتدائی برسوں سے ہی پاکستان نے امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے، مگر اس دوستی کو ناقدین اکثر “طوقِ غلامی” سے تعبیر کرتے ہیں۔ افغانستان جنگ، ڈرون حملے، اور سفارتی تنازعات نے ملکی خودمختاری پر سوالات اٹھائے۔ 

چین کے ساتھ شراکت داری اور سی پیک کو معاشی ترقی کی امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، مگر اس کے ثمرات تاحال پوری طرح سامنے نہیں آئے۔
کھیلوں اور فنون میں پاکستان نے دنیا کو ہاکی، کرکٹ، اسکواش اور باکسنگ کے چیمپئنز دیے۔ چند ادیب، شاعر اور دانشور عالمی سطح پر پہچانے گئے، مگر یہ کامیابیاں اجتماعی ترقی کا متبادل نہیں بن سکیں۔
ماہرین کے مطابق ملک کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لیے قانون کی بالادستی، تنقیدی سوچ کی ترویج، آبادی پر قابو، بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات، اورمذہبی قیادت کی طرف سے اصلاحِ اخلاق کو ترجیح دینا ناگزیر ہے۔ معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے نجی شعبے کا کردار بڑھانے اور پالیسیوں میں تسلسل لانے کی ضرورت ہے۔

78 سال بعد، پاکستان آج بھی اپنی اصل منزل کی تلاش میں ہے۔ ایک ایسا ملک جو نہ صرف دفاعی لحاظ سے مضبوط ہو بلکہ اخلاقی، تعلیمی اور معاشی طور پر بھی ترقی یافتہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ دہائیاں اس خواب کو تعبیر دے پائیں گی یا یہ سوال آنے والی نسلوں کے لیے بھی کھلا رہے گا؟


پاکستان کی پیدائش کسی آسان سفر کا آغاز نہ تھی۔ تقسیم کے وقت ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد، خالی خزانہ، صنعتی ڈھانچے کی کمی اور حکومتی اداروں کا فقدان یہ سب بیک وقت حل طلب مسائل تھے۔ 

Independence da

نئی مملکت کے پاس کوئی مرکزی بینک نہیں تھا۔ ریلوے اور صنعتی انفراسٹرکچر زیادہ تر انڈیامیں رہ گیا اور اہم دفاتر تک بنیادی سامان بھی موجود نہ تھا۔ 14 اگست 1947ء کو خزانے میں موجود رقم صرف 20 کروڑ روپے تھی جبکہ لاکھوں مہاجرین کو آباد کرنا ایک فوری چیلنج تھا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد 1 کروڑ سے زائد مسلمان ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ ان کی رہائش، خوراک اور روزگار کا انتظام ایک بڑے انسانی المیے کی صورت اختیار کر گیا۔ 

قیام کے فوراً بعد انتظامی ڈھانچہ قائم کرنا سب سے بڑی ترجیح تھی۔ 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا تاکہ مالیاتی پالیسیوں پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ ابتدائی برسوں میں حکومت نے مختلف محکمے قائم کیے مگر آئینی ڈھانچہ طے نہ ہونے کی وجہ سے پالیسیوں میں تسلسل قائم نہ رہ سکا۔

 1949ء میں قراردادِ مقاصد منظور ہوئی جس نے پاکستان کے نظریاتی ڈھانچے کی سمت متعین کی۔ اس میں واضح کیا گیا کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور ریاست کا نظام قرآن و سنت کے مطابق چلایا جائے گا۔


ابتدائی برسوں میں پاکستان کو ایک مستحکم آئین دینے کی کوششیں جاری رہیں مگر سیاسی انتشار، وزرائے اعظم کی بار بار تبدیلی اور بیوروکریسی و فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے جمہوری عمل کو کمزور کیا۔

 1951ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل نے سیاسی بحران کو مزید گہرا کر دیا۔ اس کے بعد ملک میں قیادت کا فقدان پیدا ہوا اور طاقت کے مراکز کراچی کے بجائے بیوروکریسی اور عسکری اداروں کے ہاتھ میں آنا شروع ہو گئے۔

Liaqat ali khan

تاریخ دان ڈاکٹر ریاض حسین ہمدانی بتاتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل نے ملک کی بنیادوں کو کمزور کیا، ایک دہشت گرد نے لیاقت علی خان کو مارا تھا، مگر بعد میں جوڈیشل مرڈر بھی ہوئے ہیں۔

ابتدائی برسوں میں معیشت کی بنیاد زراعت پر تھی۔ کپاس، گندم اور چاول کی پیداوار ملک کی برآمدات کا بڑا حصہ تھے۔ صنعت نہ ہونے کے برابر تھی اور درآمدات پر انحصار زیادہ تھا۔ 1950 کی دہائی میں حکومت نے صنعتی ترقی کے لیے اقدامات شروع کیے جیسے ٹیکسٹائل ملز، سیمنٹ فیکٹریاں اور شوگر ملز کا قیام۔ مگر زرعی اصلاحات محدود پیمانے پر ہوئیں۔ جس کی وجہ سے جاگیرداری نظام اپنی جگہ برقرار رہا۔

ابتدائی برسوں میں پاکستان نے خارجہ پالیسی میں مغرب خصوصاً امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔ 1954ء میں پاکستان سیٹو (SEATO) اور بعد میں سینٹو (CENTO) کا رکن بنا۔ جس کے بدلے میں اسے عسکری اور مالی امداد حاصل ہوئی۔

 اس پالیسی نے پاکستان کو سرد جنگ کے دوران مغربی بلاک کا اہم اتحادی بنا دیا مگر ناقدین کے مطابق یہ ’’غیر جانب دار خارجہ پالیسی‘‘ سے انحراف تھا، جس کے اثرات بعد کی دہائیوں میں مزید نمایاں ہوئے۔


1958ء تک سیاسی عدم استحکام اس حد تک بڑھ گیا کہ آئینی حکومتیں غیر مؤثر ہو گئیں۔ 7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کر دیا اور جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ یہ پاکستان میں فوجی مداخلت کے ایک طویل سلسلے کا آغاز تھاجس نے آنے والی دہائیوں کی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔


1958ء میں نافذ ہونے والے مارشل لا کے تحت جنرل محمد ایوب خان نے اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے آئین معطل کر کے پارلیمنٹ تحلیل کر دی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں اور ایک نیا سیاسی ڈھانچہ متعارف کرایا۔ 1962ء میں ایوب خان نے نیا آئین نافذ کیا جس کے تحت بنیادی جمہوریت (Basic Democracies) کا نظام قائم ہوا۔

 اس میں عوام براہِ راست نمائندے منتخب کرنے کے بجائے مقامی سطح پر ’’بنیادی نمائندوں‘‘ کو ووٹ دیتے جو پھر صدر اور اسمبلی کے ارکان کا انتخاب کرتے۔

ایوب خان کے دور کو معیشت کے حوالے سے ’’ترقی کا عشرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہوئی، زرعی پیداوار بڑھی اور بڑے ڈیم  تربیلا اور منگلا  تعمیر ہوئے۔ ٹیکسٹائل اور سیمنٹ صنعت میں نمایاں اضافہ ہوااور ملک کی شرح نمو چھ سے سات فیصد تک پہنچ گئی۔ تاہم یہ ترقی یکساں نہ تھی اس سے زیادہ تر شہری اور بڑے زمیندار طبقے کو فائدہ پہنچا ۔ جب کہ دیہی اور غریب طبقات کے حالات میں خاطر خواہ بہتری نہ آ سکی۔

ایوب خان کے دور میں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان معاشی اور سیاسی فاصلے بڑھنے لگے۔ مغربی پاکستان میں صنعت اور انفراسٹرکچر میں زیادہ سرمایہ کاری ہوئی ۔جب کہ مشرقی پاکستان کو نظرانداز کیا گیا۔ اس عدم مساوات نے عوام میں محرومی کا احساس پیدا کیا جو بعد میں شدید سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا۔


ایوب خان کے دور کا سب سے بڑا واقعہ 1965ء کی پاکستان انڈیا جنگ تھی۔ کشمیر میں انڈیا کے خلاف آپریشن جبرالٹر کے بعد یہ جنگ چھڑ گئی۔ اگرچہ میدان جنگ میں پاکستان نے مؤثر مزاحمت کی مگر طویل المدتی طور پر اس جنگ نے معیشت کو نقصان پہنچایا اور غیر ملکی امداد میں کمی آئی۔ 1966ء میں طشقند معاہدے پر دستخط ہوئےجسے عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملی اور ایوب خان کی مقبولیت میں کمی آ گئی۔


ایوب خان کے خلاف عوامی احتجاج بڑھتا گیا خاص طور پر مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے قیادت سنبھالی۔ 1969ء میں ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو منتقل کر دیا۔ یحییٰ خان نے مارشل لا برقرار رکھا مگر آئندہ انتخابات کے انعقاد کا اعلان بھی کیا۔

1965 war

1970ء کے عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے پہلے شفاف اور براہِ راست انتخابات تھے۔ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے 167 نشستوں میں سے 160 جیت کر واضح اکثریت حاصل کی۔جب کہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ آئینی طور پر حکومت سازی کا حق عوامی لیگ کو حاصل تھا مگر اقتدار کی منتقلی میں تاخیر اور سیاسی مذاکرات کی ناکامی نے بحران کو جنم دیا۔
مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں حالات بگڑ گئے۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جس میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ انڈیا نے دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ صرف 13 دن کی جنگ میں پاکستانی فوج کو شکست ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے طور پر الگ ہو گیا۔

یہ سانحہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا صدمہ تھا۔ اس نے نہ صرف ملک کی جغرافیائی وحدت کو نقصان پہنچایا بلکہ نظریاتی بنیادوں کو بھی کمزور کیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والی معاشی ناانصافی، ثقافتی عدم قبولیت اور سیاسی ہٹ دھرمی اس المیے کی بڑی وجوہات تھیں۔

ڈاکٹر ریاض حسین ہمدانی نے کہا ہے قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی غلطی ہوئی کہ زبان کا مسئلہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک جا پہنچا۔ قائداعظم اردو پر ڈٹے ہوئے تھے جبکہ مشرقی پاکستان کے افراد اردو اور بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دلوانا چاہتے تھے۔

جنرل یحییٰ خان نے جماعت اسلامی کے کہنے پر عام انتخابات کروائے۔ مجیب الرحمان الیکشن جیت گئے۔ غلطی یہ ہوئی کہ مجیب الرحمان کو 6 نکات پر الیکشن نہیں لڑنے دینا تھا۔ 

  1971ء کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان کے اتحاد کے لیے محض نظریہ کافی نہیں بلکہ مساوی معاشی مواقع، سیاسی شمولیت اور ثقافتی احترام بھی ضروری ہیں۔ تاہم یہ سانحہ ایک نئے سیاسی دور کا آغاز بھی ثابت ہوا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی قیادت سنبھالی۔

پاکستان کی معیشت کا سفر 1971ء کے سانحہ کے بعد ایک نئے موڑ پر آ گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے نہ صرف جغرافیائی بلکہ اقتصادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ ملک کی آبادی اور رقبہ کم ہوا مگر وسائل پر دباؤ برقرار رہا۔

 معیشت کی سمت مختلف ادوار میں بار بار بدلی، کبھی ریاستی کنٹرول اور کبھی نجی شعبے پر انحصار کیا گیا، لیکن پالیسیوں میں تسلسل کی کمی نے پائیدار ترقی کے امکانات کو محدود رکھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں معیشت کو ریاستی کنٹرول میں لانے کی پالیسی اپنائی گئی۔ بڑے صنعتی یونٹس بینک اور تعلیمی ادارے قومیائے گئے۔ اس اقدام کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم اور غریب طبقے کی حالت بہتر بنانا تھا مگر اس کے نتیجے میں نجی شعبے کا اعتماد مجروح ہوا۔ صنعتی پیداوار میں کمی آئی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔

Zulfaqar ali bhutto

1973ء کے آئین کے بعد بھٹو حکومت نے زرعی اصلاحات بھی کیں مگر جاگیردارانہ ڈھانچے میں بڑی تبدیلی نہ آ سکی۔ اس دور میں تیل کے عالمی بحران اور مہنگائی نے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع ہوئی۔ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی بنا اور بڑی مقدار میں عسکری اور مالی امداد ملی۔ اس امداد نے معیشت میں وقتی بہتری پیدا کی زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھے اور ترقی کی شرح بہتر ہوئی۔

مگر یہ ترقی زیادہ تر غیر ملکی امداد پر مبنی تھی اور پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا۔ افغان مہاجرین کی آمد اور منشیات و اسلحہ کلچر کے پھیلاؤ نے سماجی و اقتصادی مسائل کو جنم دیا۔

یہ دہائی بار بار حکومتوں کی تبدیلی، بدعنوانی کے الزامات اور آئی ایم ایف پروگرامز کی واپسی کا زمانہ تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں پالیسیوں کا تسلسل قائم نہ رہا۔

1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد عالمی پابندیوں نے معیشت پر دباؤ ڈالا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہوئی روپے کی قدر گری اور مہنگائی بڑھی۔ اس دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر ایک اہم سہارا بنی۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2001ء کے بعد امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شراکت داری کے نتیجے میں بھاری مالی امداد ملی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھی، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی اور شرح نمو 7 فیصد تک پہنچ گئی۔ 

مگر یہ ترقی پائیدار نہ تھی۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران، اندرونی بدامنی اور توانائی بحران نے ترقی کی رفتار کو روک دیا۔

پیپلز پارٹی (2008–2013) اور مسلم لیگ (ن) (2013–2018) کے ادوار میں توانائی بحران، کرپشن کے اسکینڈلز اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ نے معیشت کو جکڑے رکھا۔سی پیک (CPEC) منصوبے کے تحت بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری آئی جسے ترقی کی امید سمجھا گیا مگر قرضوں کی ادائیگی کے خدشات بھی بڑھ گئے۔

روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی، اور تجارتی خسارہ بڑھتا گیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی، جس نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج لیا۔

2020ء میں کورونا وبا نے عالمی معیشت کو متاثر کیا اور پاکستان بھی اس کی زد میں آیا۔ لاک ڈاؤن کے باعث صنعتی پیداوار اور برآمدات میں کمی آئی۔ حکومت نے احساس پروگرام اور دیگر امدادی پیکجز متعارف کرائے، مگر بجٹ خسارہ اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔

2022ء کے بعد سیاسی بحران، روپے کی تاریخی گراوٹ، اور مہنگائی کی بلند ترین شرح نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا۔ آئی ایم ایف پروگرامز نے وقتی ریلیف دیا، مگر سخت شرائط اور سبسڈی میں کمی نے عوامی مشکلات میں اضافہ کیا۔

اسی طرح دو واقعات پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایسے بھی ہیں جن میں سے ایک پاکستان کی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا تو دوسرا پاکستان کی خودمختاری کی ضمانت دیتاہے۔نومئی 2023 کو پاکستان میں اچانک ایک ایسا دن آیا جب پورا ملک ہنگاموں، حملوں اور تباہ کاریوں کی لپیٹ میں آگیا۔ 

Protest

عوامی احتجاج کے نام پر کئی شہروں میں سرکاری اور فوجی عمارتوں پر حملے کیے گئے۔ راولپنڈی میں پاک فوج کے ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) کے گیٹ پر حملہ کیا گیا اور وہاں موجود ایک فوجی مجسمے کو گرا کر تباہ کر دیا گیا۔ 

فیض آباد میں “حمزہ کیمپ”، جو کہ پہلے “اوجڑی کیمپ” کہلاتا تھا، اسے بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پہلے افغان جہاد کے دور میں مجاہدین کو اسلحہ فراہم کیا جاتا تھا اور 1988 میں یہاں خوفناک دھماکے ہوئے تھے جس میں ہزاروں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے۔

لاہور میں صورتحال اور بھی سنگین تھی۔ کورکمانڈر کے گھر “جناح ہاؤس” کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔ عسکری مال اور سی ایس ڈی کی عمارتوں پر بھی حملے ہوئے۔ یہاں تک کہ وزیرِاعظم ہاؤس لاہور اور نون لیگ کا ماڈل ٹاؤن میں پارٹی دفتر بھی محفوظ نہ رہ سکا۔

 فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفاتر اور وزیرِداخلہ کے گھر پر حملے کیے گئے۔ سرگودھا میں پاکستان ایئر فورس کی یادگار، جہاں ایم ایم عالم کا تاریخی طیارہ نصب تھا، اسے تباہ کر دیا گیا۔ میانوالی میں ایئر فورس کے بیس پر بھی حملہ ہوا۔

ملتان، گوجرانوالہ اورکراچی میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی۔ کراچی میں رینجرز کی چیک پوسٹ کو آگ لگا دی گئی۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو نذرِ آتش کیا گیا اور ایدھی کی ایمبولینسیں بھی جلا دی گئیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں سکولوں تک کو جلا دیا گیا۔ یہ سب کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے ملک کے اندر ہی جنگ شروع ہو گئی ہو۔

ان واقعات نے 2007 کی یاد تازہ کر دی جب جنرل مشرف کے دور میں جی ایچ کیو اور فیض آباد میں دہشت گردوں نے خودکش حملے کیے تھے۔ اُس وقت ان حملوں کے پیچھے پاکستانی طالبان کا ہاتھ بتایا گیا تھا اور اب یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ انہی میں سے کچھ عناصر تحریکِ انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔

بعد میں 27 مئی 2023 کو اسلام آباد اور راولپنڈی کی دیواروں پر “یوم مذمت غدارِ پاکستان” کے بینرز آویزاں کیے گئے۔ ان بینرز پر تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کچھ صحافیوں کی تصاویر لگائی گئیں اور ان پر لعنت کے نشانات بنائے گئے۔ 

Banners

دلچسپ بات یہ تھی کہ اسد عمر، جو ایک سابق جنرل کے بیٹے ہیں، ان بینرز میں شامل نہیں تھے، حالانکہ ان کے والد سقوط ڈھاکہ میں اہم کردار ادا کر چکے تھے۔

اسی طرح 22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے میں 26 افراد مارے گئے۔ انڈیا نے بغیر تحقیق اور ثبوت کے 7 مئی کو “آپریشن سندور” کے تحت پاکستان پر میزائلوں سے حملے شروع کر دیے۔

اس آپریشن کا پاکستان نے بنیان مرصوص کے نام سے مختصر دورانیے کا آپریشن کرکے کامیاب جواب دیا، پاکستانی فورسز انڈیا کے 6 جنگی طیارے گرانے اور کئی ہوائی اڈے تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کرتی ہیں۔

 اس آپریشن میں پاکستان نے پہلی بار مقامی طور پر تیار کردہ جدید میزائل “الفتح ون” استعمال کیا۔ اس میزائل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پرواز کے دوران اپنا راستہ بدل کر بھی ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور 120 کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔

پاکستانی افواج نے انڈیا کے 26 اہم فوجی مقامات کو نشانہ بنایا جن میں ایئر بیسز، اسلحہ ڈپو، براہموس میزائل مراکز اور دفاعی نظام شامل تھے۔ انڈیا کے جدید S-400 سسٹمز کو بھی تباہ کیا گیا۔ انڈین میڈیا نے ان حملوں کی تصدیق کی خاص طور پر سرسہ ایئر فیلڈ کی تباہی کا اعتراف کیا۔

ان حملوں کے بعد انڈیا نے مزید جنگ سے بچنے کے لیے امریکی صدر کی مدد سے جنگ بندی کی درخواست کی اور اس طرح ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔

پاکستان کا دفاعی اور سائنسی سفر اس کی تاریخ کا ایک نمایاں اور فخر کا پہلو ہے۔ 1947ء میں قیام کے وقت پاکستان کو فوجی اور سائنسی لحاظ سے شدید کمی کا سامنا تھا۔ فوجی اثاثے، اسلحہ اور دفاعی ڈھانچہ زیادہ تر انڈیا میں رہ گیا، اور ملک کو اپنے دفاعی ادارے صفر سے کھڑے کرنے پڑے۔ مگر 78 سال بعد پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کا دفاعی نظام جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق پر مبنی ہے۔

قیام پاکستان کے وقت فوج کو محدود وسائل کے ساتھ تشکیل دیا گیا۔ انڈیا سے اسلحہ اور فنڈز کی تقسیم میں مسائل کے باعث پاک فوج کو ابتدا میں پرانی طرز کا اسلحہ استعمال کرنا پڑا۔

 1948ء میں کشمیر کی جنگ نے دفاعی تیاریوں کی اہمیت اجاگر کی، جس کے بعد فوجی اداروں کی تنظیم نو کی گئی۔ 1951ء میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے اور جدید اسلحہ حاصل کرنا شروع کیا۔

1971ء کے سانحہ اور انڈیا کے 1974ء میں ایٹمی دھماکے سمائلنگ بدھا نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے پر مجبور کر دیا۔

 وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس موقع پر کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور دیگر سائنسدانوں کی قیادت میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم کی گئیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں پاکستان نے خاموشی سے یورینیم افزودگی کی صلاحیت حاصل کر لی۔

28 مئی 1998ء کو بلوچستان کے چاغی پہاڑوں میں پاکستان نے پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے، جس کے ساتھ ہی یہ دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ یہ اقدام انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں کیا گیا، جس سے خطے میں طاقت کا توازن بحال ہوا۔

ایٹمی پروگرام کے عینی شاہد ڈاکٹر ریاض حسین ہمدانی نے کہا ہے کہ وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے کہا تھا ’ہم گھاس کھائیں گے، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنائیں گے۔ دنیا بھر چن چن کر ماہرین لائے گئے۔ کیونکہ انڈیا اس وقت ایٹم بم بنا چکا تھا۔ پاکستان 1985 میں ایٹم بم بناچکا تھا جب ضیا الحق نے انڈیا میں جاکر انڈین وزیراعظم کو دھمکی دی تھی۔

یہ دھماکے نہ صرف دفاعی لحاظ سے اہم تھے بلکہ عوامی سطح پر قومی فخر کا باعث بھی بنے۔ تاہم اس کے بعد عالمی پابندیاں لگ گئیں، جنہوں نے معیشت کو متاثر کیا، مگر پاکستان نے ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔ایٹمی پروگرام کے ساتھ ساتھ میزائل ٹیکنالوجی میں بھی پاکستان نے اہم پیش رفت کی۔ 

دفاعی صنعت میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس (PAC) کامرہ نے جے ایف-17 تھنڈر جیسے جدید لڑاکا طیارے تیار کیے، جو چین کے تعاون سے بنائے گئے۔ پاکستان اور چین کا یہ منصوبہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی کامیابی حاصل کر رہا ہے۔

F 17

پاکستان کا سائنسی سفر صرف دفاع تک محدود نہیں رہا۔ خلائی تحقیق کے ادارے “سپارکو” نے مصنوعی سیارے لانچ کیے، مواصلاتی نظام بہتر بنایا، اور زمین کے مشاہدے کے منصوبوں پر کام کیا۔

چند پاکستانی سائنسدانوں نے بایوٹیکنالوجی، میڈیکل ریسرچ اور آئی ٹی میں بھی عالمی سطح پر پہچان حاصل کی۔ تاہم سویلین شعبے میں تحقیق اور ترقی کی رفتار دفاعی شعبے کے مقابلے میں کم رہی۔

پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کے عوام ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑے بحران میں پاکستانی قوم نے یکجہتی، قربانی اور محنت سے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کردی، یہ معجزہ کیسے ہوا؟

 چاہے 1965ء کی جنگ ہو، 2005ء کا زلزلہ یا 2010ء کاسیلاب یا پھر حالیہ انڈیا کی جانب سے جنگی جارحیت ہو قوم نے اپنے اتحاد سے دنیا کو حیران کیا۔

مزید پڑھیں:پاکستان بحران سے نکل کر نئے معاشی دور میں داخل ہو رہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف

پاکستان کے 78 سالہ سفر میں ہم نے کامیابیاں بھی حاصل کیں اور ناکامیاں بھی دیکھیں۔ اگر ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر سیاسی استحکام، معاشی خود کفالت، تعلیم، صحت اور انصاف پر توجہ دیں تو اگلے 22 سال بعد یعنی صدی کے موقع پر پاکستان ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہو سکتا ہے۔

یہ سفر آسان نہیں ہوگا، مگر ناممکن بھی نہیں  بشرطیکہ ہم سب اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور ایک قوم بن کر آگے بڑھیں۔

Author

اظہر تھراج

اظہر تھراج

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس