پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں شدت پسندوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب آٹھ حملے کیے جن میں فائرنگ اور دستی بموں کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں چھ پولیس اہلکار جاں بحقہو گئے۔
پولیس افسر محمد علی باباخیل کے مطابق یہ حملے خیبر پختونخوا کے سات اضلاع میں پولیس اسٹیشنز، چیک پوسٹس اور گشت کرنے والی ٹیموں پر کیے گئے۔
کچھ حملوں میں راکٹ لانچرز بھی استعمال ہوئے۔ ان واقعات میں نو اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب 24 کروڑ آبادی والا ملک پاکستان اپنی 78ویں یومِ آزادی کی تقریبات منا رہا تھا۔
حال ہی میں شدت پسند حملوں میں اضافہ کم وسائل اور بوجھ تلے دبے پولیس فورس کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، جو دہشت گردی کے خلاف پہلی دفاعی لائن ہے۔

ان حملوں کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے، جو افغان طالبان سے منسلک ایک پاکستانی شدت پسند گروہ ہے۔
ٹی ٹی پی کئی سنی شدت پسند گروہوں کا اتحاد ہے اور 2007 سے ریاست کے خلاف برسرپیکار ہے، اس کا مقصد حکومت کا خاتمہ اور اپنی طرز کا اسلامی نظام نافذ کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن کے اسلام آباد اور نئی دہلی، دونوں سے اچھے تعلقات ہیں، امریکا
حملوں میں تیزی اس وقت آئی جب ٹی ٹی پی نے 2022 کے آخر میں پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کر دی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں 335 شدت پسند حملے ہوئے جن میں 520 افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ شدت پسند پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ہیں، جہاں وہ تربیت حاصل کرتے اور حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، تاہم کابل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔