Follw Us on:

میں پاکستان ہوں 

اظہر تھراج
اظہر تھراج
Web
پاکستان کی تاریخ عروج وزوال کی داستان ہے(تصویر: پاکستان میٹرز)

لوگوں نے آزادی کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے، آزادی صرف نعروں سے نہیں ملی، لوگوں نے جسم کے حصے قربان کیے ہیں۔ پاکستان کا اعلان کرنے والے سید مصطفیٰ ہمدانی کا داماد میرے سامنے بیٹھے کہانی بیان کرتے آبدیدہ تھا۔ سٹوڈیو میں موجود ہرشخص کی یہی کیفیت تھی۔

سٹوڈیو سے باہر نکلا تو ’پاں پاں‘ کی آوازیں میرے کانوں کو اذیت دینے لگیں، بچے تو بچے بڑے بھی باجا بجانے میں فکر محسوس کررہے تھے۔ سڑک پر ایک شخص ایسا بھی دیکھنے کو ملا جس کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا مگر وہ سبز اور سفید رنگ کا بہروپیا بن کر نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے پھر رہا تھا۔ آگے بڑھا تو رکشے کے پیچھے لٹکی ایک لڑکی ساتھ چلنے والے موٹر سائیکل سواروں کے کانوں میں ’پاں پاں‘ کرکے اپنی غیرت کا ثبوت دے رہی تھی۔

اس سارے منظر میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ رات 12 بجتے ہی فضا سبز اور سفید رنگوں میں رنگ گئی، گولوں کی گونج میں ’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ کے ملی نغمے بھی بجنے لگے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تاج برطانیہ اور ہندو سامراج سے آزادی اسی لیے حاصل کی گئی تھی؟ 

اس سوال کا جواب خود پاکستان چیخ چیخ کر بیان کررہا ہے۔ یہ کہانی بہت لمبی ہے، یہ سفر بہت کٹھن ہے۔ میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی میرا نام پاکستان رکھا گیا۔ 1947ء میں جب میرا جنم ہوا تو مفلوک الحال غریب کے بچے کی طرح میرے تن پہ کپڑے، پیٹ میں نوالے نہیں تھے۔ میرا بچپن اور لڑکپن ایسے ہی گزر گئے بلکہ اس حال میں مجھے کئی لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں، جس کے مجھ کو زخم بھی آئے جن سے آج بھی خون رس رہا ہے۔

میری پیدائش پر جہاں خوشیاں منائی گئیں تو وہیں لاکھوں قربانیاں بھی دی گئیں، کئی سہاگ اجڑے تو لاکھوں یتیم ہوئے۔ کئی بے گھر ہوئے، دربدر ہوئے۔ مجھے بچپن سے لیکر آج تک آئین کی زنجیروں میں جکڑنے کی کئی بار کوشش کی گئی۔

 پہلے انگریزوں کا قانون لاگو کیا گیا۔ پھر 1949ء میں قرارداد مقاصد کے نام پر مجھے مولوی بنانے کی کوشش کی گئی، یہ بات جب سیکولر طبقے کو ہضم نہ ہوئی تو مجھے لادین ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ 1952ء اور 1956ء میں ایک بار پھر زنجیریں پہنائیں گئیں جو دو سال بعد ہی ٹوٹ گئیں۔

1962ء، 1973ء میں بھی آئین آئین کا کھیل کھیلا گیا، جن میں اب تک 21، 22 تبدیلیاں کردی گئیں لیکن آج تک اپنی روح کے حساب سے کبھی نافذ نہ ہو سکا۔ مجھ پر طرز حکمرانی کے بھی طرح طرح کے تجربے کیے گئے۔ کبھی جمہوری نظام لایا گیا تو کبھی فوجی چھتری تلے پناہ ڈھونڈی گئی، کبھی اسلامی سوشلزم کا سہارا لیا گیا تو کبھی خود ساختہ شریعت کا، میرے بیٹوں نے مجھ پر بندوق کے ذریعے اپنا حکم چلانے کی کوشش کی۔

میں 79 سال کا ہوگیا ہوں، لیکن آج بھی غریب ہوں۔ آج بھی کمزور ہوں، بھلا کیوں؟ کبھی سوچا میرے بیٹو! میرے ساتھ جنم لینے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میرے سے 2 سال بعد جنم لینے والا چین جس کا دنیا مذاق اڑاتی تھی۔ جو مجھ سے کئی درجے کمزور تھا۔ کل تک مجھ سے بھیک مانگتا تھا۔ آج دنیا پر راج کرتا ہے۔ دنیا کے سب وسائل اس کے قدموں میں ہیں۔ کل دنیا جسے گونگا سمجھتی تھی آج وہ بولتا ہے دنیا سنتی ہے۔ میرا آج حال یہ ہے کہ پورا کا پورا بدن زخموں سے چور ہے۔ سندھ میں مہاجرازم اور قوم پرستی کا زہر اگلا جارہا ہے۔ بلوچستان میں آزادی کے نام پر گلے کاٹے جارہے ہیں۔ فاٹا میں مذہب کے نام پر بارود بچھایا گیا، مسجدوں، امام بارگاہوں میں جہاں محبت کے پھول ملتے تھے وہاں نفرت بیچی گئی۔ مذہب کو تجارت بنایا گیا۔

1947ء سے قبل ایک گورے انگریز کا غلام تھا آج کئی کالے انگریزوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہوں۔ معاشی طور پر سرمایہ دار گلا گھونٹ رہا ہے تو جاگیردار غریب کے بچوں کو اپاہج کر رہا ہے۔ ایسے گھناؤنے کام کیے جارہے ہیں کہ مجھے اپنا منہ چھپانا پڑ رہا ہے۔ یہاں آزادی ہے تو سود خوروں کو ہے۔ رشوت عام ہے، بھتہ خوروں، بدعنوانوں، جھوٹے، منافقوں، ذخیرہ اندوزوں، دہشتگردوں، کام چوروں، خوشامدی سیاستدانوں کو آزادی ہے۔ 

مزید پڑھیں: 14اگست آزادی یا غلامی کا دن

یہاں کی صحافت تجارت بن چکی، یہاں علم کی بولی لگتی ہے اور قلم بکتے ہیں۔ سیاست بدنام ہوچکی، غیرت بے نام ہوچکی، یہاں کی تجارت پیشہ پیغمبری نہیں رہی، تھانوں میں جائے تو انسان کپڑے بھی اتروا کر نکلتا ہے، یہاں کے پولیس والے سگریٹ کی ڈبیا کی خاطر اپنا ایمان فروخت کردیتے ہیں، استاد، استاد نہیں رہا اور شاگرد، شاگرد نہیں رہا۔ علم دینے والے صنعتکار بن گئے اور علم حاصل کرنے والے سردار بن گئے ہیں۔ 

یہاں غریبوں کے بچے راتوں کو بھوکے سوجاتے ہیں اور بڑے بڑے گھروں اور توندوں والے پوچھنا تک گوارہ نہیں کرتے۔ میرے بیٹے کیا اقبال نے میرے ایسے ہی مستقبل کا خواب دیکھا تھاٖ؟ آپ کے بابا قائد اعظم نے اسی دن کیلئے جدوجہد کی تھی؟

آج سب بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ سب کو روٹی، کپڑا اور مکان دوں گا، کوئی کہتا ہے کہ مجھے  سپر پاور بنا دیا جائیگا۔ کوئی مجھے میل کچیل اتار کر نیا بنانے کی بات کرے گا۔

کوئی کہے گا میں رب اور رب کے نظام کو بھول چکا ہوں اور وہ مجھے دوبارہ کلمہ پڑھانے کی کوشش کرے گا۔ کوئی کہتا ہے کہ میرے مہاجر بیٹوں کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا، ہم ان کو انصاف دینگے، ٹی وی والے بھی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر طرح طرح کی بڑھکیں مارتے ہیں۔

تمھاری تمام قباحتوں، تمام خامیوں کے باوجود میں مایوس نہیں۔ نفرت، جہالت کے اندھیرے میں ابھی امید باقی ہے، ابھی وہ لوگ بھی موجود ہیں جو میرے لیے فخر کا باعث ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قائد اعظم سے شہباز شریف تک، پاکستان کے 78 سال: وہ راز جو قوم سے چھپائے گئے

میرے بیٹے سرحدوں پر موجود ہیں۔ وہ مجھے بچائیں گے۔ وہی مجھے ترقی بھی دینگے۔ تمہیں یاد ہے کہ انہوں نے ہی مجھے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے لڑ کر بچایا۔ صرف چار گھنٹوں میں دنیا کو بتا دیا کہ ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک، کئی گنا بڑی دفاعی طاقت رکھنے والا انڈیا میرے آگے کچھ بھی نہیں۔

 میرے جوان تو اپنوں کے لباس میں چھپے بن دیکھے دشمن کو جہنم میں جھونک رہے ہیں۔ مجھے فخر ہے ان ماؤں پر جو اپنے بیٹوں کی جدائی تو سہتی ہیں لیکن میرے خلاف اٹھنے والی آواز کو کبھی برداشت نہیں کرتیں۔ دنیا مجھے میرے روشن مستقبل کی نوید سنا رہی ہے، میں ایک روشن دلیل ہوں۔ میں اللہ کا انعام ہوں۔ میں پاک ہوں کیونکہ ”میں پاکستان ہوں”۔

نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

Author

اظہر تھراج

اظہر تھراج

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس