Follw Us on:

’بڑی پیشرفت، مگر معاہدہ نہیں ہوا‘، ٹرمپ پیوٹن ملاقات میں کیا بات چیت ہوئی؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Alaska
پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ جب تک معاہدہ نہ ہو، تب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوتا۔ (فوٹو: رائٹرز)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی الاسکا کے شہر اینکریج میں ہونے والی اہم ملاقات ختم ہو گئی۔

تین گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں یوکرین جنگ کے حوالے سے کوئی معاہدہ تو نہ ہو سکا لیکن امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ مذاکرات میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔

سی این این کے مطابق مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ جب تک معاہدہ نہ ہو، تب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوتا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بنیادی اسباب ختم کیے جائیں کیونکہ یہ معاملہ روس کی سلامتی کو لاحق بنیادی خطرات سے جڑا ہوا ہے۔

Alaska meeting
مصافحے کے دوران صحافیوں نے سوالات کیے لیکن دونوں صدور ایک ہی گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔ (فوٹو: رائٹرز)

اس سے قبل دونوں رہنما ایئر فورس ون اور اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے الاسکا پہنچے جہاں ایلمینڈورف-رچرڈسن بیس پر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔ مصافحے کے دوران صحافیوں نے سوالات کیے لیکن دونوں صدور ایک ہی گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔

امریکی عہدیداروں کے مطابق اجلاس میں تمام آپشنز زیر بحث آ سکتے تھے، حتیٰ کہ اگر ٹرمپ کو لگا کہ پیوٹن معاہدے میں سنجیدہ نہیں تو وہ اجلاس سے واک آؤٹ بھی کر سکتے تھے۔

وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ طے شدہ ون آن ون ملاقات کے بجائے اب دونوں صدور کے ساتھ مشیر بھی شامل ہوں گے۔ امریکی صدر کے ساتھ وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف اور دیگر سولہ اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔

روسی وفد میں وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، وزیر دفاع آندرے بیلوسوف، وزیر خزانہ آنتون سیلوانوف اور اقتصادی مشیر کیرل دمترییف شامل تھے۔

Alaska meeting.
امریکی صدر نے کہا کہ اگر پیوٹن جنگ ختم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو روس کو سخت اقتصادی نتائج بھگتنا ہوں گے۔ (فوٹو: رائٹرز)

امریکی صدر نے کہا کہ اگر پیوٹن جنگ ختم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو روس کو سخت اقتصادی نتائج بھگتنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری تعلقات صرف اسی وقت ممکن ہیں جب جنگ ختم ہو اور قتل و غارت رک جائے۔

ایک صحافی کے سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ علاقوں کے تبادلے پر بات ہوسکتی ہے لیکن فیصلہ یوکرین کو کرنا ہے، وہ یوکرین کی نمائندگی نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ صدر نہ ہوتے تو روس پورا یوکرین لے لیتا۔

یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن کے اسلام آباد اور نئی دہلی، دونوں سے اچھے تعلقات ہیں، امریکا

یوکرین کا کوئی نمائندہ اجلاس میں شریک نہیں تھا، حالانکہ کیف اور یورپی اتحادیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ یوکرین کو مذاکرات کی میز پر نمائندگی دی جائے۔ امریکی صدر نے عندیہ دیا کہ ان کا ہدف یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ سہ فریقی ملاقات ہے۔

اینکریج میں اجلاس کے موقع پر یوکرین کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ملک کے مستقبل کا کوئی فیصلہ ان کی شمولیت کے بغیر قابل قبول نہیں ہوگا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس