Follw Us on:

آزادیِ اظہار یا علیحدگی پسندی، سکھوں کا خالصتان ریفرنڈم کیا ہے؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 08 16 at 11.41.10 pm
سکھوں کی ایک بڑی تعداد انڈیا میں اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں سمجھتی۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے ایک غیر رسمی، مگر معنی خیز سیاسی تحریک نے نیا سفر شروع کر دیا ہے۔ اس تحریک کا نام ہے خالصتان ریفرنڈم ہے، جس کا مقصد ہے سکھ برادری کے ذہن میں ایک مخصوص سوال اٹھانا کہ  کیا پنجاب کو ایک خودمختار ملک ‘خالصتان’ میں تبدیل ہونا چاہیے؟

خالصتان ریفرنڈم آج  17 اگست 2025 کو واشنگٹن ڈی سی امریکا میں منعقد کیا جارہا ہے۔ یہ ریفرنڈم غیر رسمی اور غیر پابند ہے، جس کا مقصد صرف عالمی سطح پر سکھوں کی رائے کو منظر پر لانا ہے۔  عالمی و سیاسی حلقوں میں اس ریفرنڈم کو لے کر بحث جاری ہے۔

دنیا بھر کی سکھ برادری میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا انڈیا کے پنجاب خطے کو ایک الگ خودمختار ریاست “خالصتان” بنایا جانا چاہیے؟ اسی سوال کے گرد بنی تحریک کو “خالصتان ریفرنڈم” کہا جاتا ہے۔

یہ ریفرنڈم کسی سرکاری ریاستی عمل کا حصہ نہیں، بلکہ ایک غیر رسمی مگر علامتی رائے شماری ہے، جس کا مقصد عالمی اداروں کو باور کرانا ہے کہ سکھوں کی ایک بڑی تعداد انڈیا میں اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں سمجھتی اور ایک الگ وطن کی خواہش رکھتی ہے۔

نيوزی لینڈ کے سابق رکن پارلیمنٹ کانوالجیت سنگھ بکشی نے کہا ہے کہ خالصتان ریفرنڈم میں صرف ایک چھوٹا اور آواز بلند کرنے والا اقلیتی گروہ حصہ لے رہا ہے اور یہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔

جب برطانوی راج کا سورج غروب ہو رہا تھا، سکھ مفکرین نے ایک علیحدہ سکھ ثقافتی و سیاسی شناخت کا مفہوم خود میں روشن کیا۔ 1930 اور 40 کی دہائی میں “سِکھستان” یا “خالصتان” کا تصور کتابوں اور منشوروں میں ابھرنے لگا ۔ یہی پس منظر آج کے خالصتان ریفرنڈم کا محرک ہے، جسے سکھوں کی نمائندہ تنظیم سِکھز فار جسٹس (ایس ایف جے) منظم کر رہی ہے۔

Khalistan
سکھوں کے حقوق عالمی سطح پر تسلیم کیے جائیں۔ (فوٹو: فائل)

1948 میں “آپریشن بلیو اسٹار” کے دوران امرتسر کے مقدس گولڈن ٹیمپل پر انڈین فوج کا حملہ اور ہزاروں سکھوں کی ہلاکت نے اس مطالبے کو نئی شدت دی۔ بعد ازاں وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل اور دہلی سمیت دیگر شہروں میں سکھ مخالف فسادات نے اس زخم کو اور گہرا کر دیا۔

سِکھز فار جسٹس نامی امریکی تنظیم نے خالصتان ریفرنڈم کا بیڑا اٹھایا۔ یہ تنظیم 2007 میں قائم ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ اس نے ماضی میں سکھ تشدد کے خلاف عدالتی اقدامات نہ ہونے پر آواز اٹھانے کے لیے قانونی جدوجہد شروع کی ۔

ایس ایف جےنے پہلی بار 2018 میں “ریفرنڈم 2020” کا اعلان کیا، جس کا مقصد سکھ برادری میں جدائی پسندی کے جذبات کو علامتی طور پر پرکھنا تھا۔ یہ اقدامات لندن اور کئی یورپی اور ایشیائی ممالک جیساکہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، ملائشیا، فوکلپنڈ، میانمار وغیرہ میں کیے گئے۔

ان رائے شماریوں کا مقصد ایک عالمی سکھ آوازی پلیٹ فارم بننا تھا تاکہ یونائیٹڈ نیشنز اور دیگر عالمی اداروں کے سامنے یہ مطالبہ پیش کیا جا سکےاور سکھوں کو خودمختاری کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

ماہرِ عالمی تعلقات ڈاکٹر نیہا سنگھ کہتی ہیں کہ یہ ریفرنڈم ایک طرح کا سیاسی بیان ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر سکھ مسئلے کو اجاگر کرنا ہے۔ اس کی مقبولیت اور اثر پذیری محدود ہے کیونکہ انڈیا کی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ خالصتان ریفرنڈم کی حمایت کرنے والے گروپ زیادہ تر بیرون ملک مقیم سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہندوستان نے ایس ایف جے کو 2019 میں غیر قانونی تنظیم قرار دے دیا اور اس کے خلاف مقدمات دائر کیے ۔ تاہم خارج ملک سکھ کمیونٹی نے اسے اظہارِ رائے اور سیاسی شناخت کا جنگ قرار دیا۔

ایس ایف جے نے اعلان کیا کہ خالصتان ریفرنڈم 17 اگست 2025 کو واشنگٹن ڈی سی امریکا میں منعقد ہوگا ۔ یہ ریفرنڈم غیر رسمی اور غیر پابند ہوگا، مقصد صرف عالمی سطح پر سکھوں کی رائے کو منظر پر لانا ہے۔

Khalistan ii
حمایت کرنے والے گروپ زیادہ تر بیرون ملک مقیم سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

پچھلے سالوں میں مختلف شہروں میں ہونے والی ایونٹس، جیسے برمپٹن (کینیڈا)، سان فرانسسکو (یو ایس اے)، میلبرن (آسٹریلیا) وغیرہ، ریفرنڈم کی بنیادی پولنگ مقامات تھے ۔ ان کا مقصد سرکاری سطح پر کہیں سکھوں کی آواز دبائی نہ جائے بلکہ غیر ریاستی سطح پر بھی آواز بلند ہو۔

ماہرِ عالمی امور جمال جعفر خان نے کہا ہے کہ اگر اس ریفرنڈم میں بڑی تعداد میں ووٹ پڑے اور اکثریت جدا طلب کے حق میں ہو، تو انہیں یونائیٹڈ نیشن میں اپنی پٹیشن کرنی چاہیے تاکہ سکھوں کے حقوق عالمی سطح پر تسلیم ہوں۔

ان کوششوں نے ہندوستان اور کئی دوسرے ممالک میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔ 2025 میں مارچ میں ہندوستان نے امریکی حکومت سےایس ایف جے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی درخواست کی، خاص طور پر اس پس منظر میں جب امریکا نے ایک مبینہ قتل کے منصوبے کو ناکام بنایا تھا، جس میں دشمن کے طور پرایس ایف جے کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو ہدف بنایا گیا تھا۔

گرپتونت سنگھ نے سوال کیا کہ کیا دہشت گرد وہ ہے، جو پنجاب کو ایک آزاد ریاست بنانے کی جمہوری جدوجہد کر رہا ہے، یا وہ حکومت جو قاتلوں کو بھرتی کر کے اپنے ناقدین کو خاموش کرواتی ہے۔

خالصتان ریفرنڈم کا آغاز 2020 میں “ریفرنڈم 2020” کے نام سے ہوا، تب سے دنیا بھر میں مختلف ممالک میں ہزاروں سکھ برادری کے افراد ووٹ ڈال چکے ہیں۔

سب سے پہلی ریفرنڈم ووٹنگ لندن میں ہوئی، جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ کینیڈا میں  لاکھوں سکھ کمیونٹی کے لوگوں نے شرکت کی، قطاریں کئی کلومیٹر تک نظر آئیں۔ امریکا میں بڑی تعداد میں نوجوانوں اور بزرگوں نے ووٹ ڈالا۔

ان کے علاوہ آسٹریلیامیں بھی ہزاروں افراد نے خالصتان کے حق میں ووٹ ڈالے۔ یورپ میں مقامی گوردواروں کے تعاون سے ووٹنگ کے مراکز قائم کیے گئے۔

انڈین حکومت اس ریفرنڈم کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ نئی دہلی نے سکھز فار جسٹس کو 2019 میں غیر قانونی تنظیم قرار دیا اور اس کے بانی گُرپتونت سنگھ پنوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے۔

Khalistan refrendom
انڈین حکومت اس ریفرنڈم کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

انڈیا نے مؤقف اپنایا کہ یہ ریفرنڈم ایک پروپیگنڈا ہے، جس کے پیچھے پاکستان کی حمایت اور بیرونی عناصر کی مداخلت ہے۔ اس کا مقصد انڈیا کو غیر مستحکم کرنا اور پنجاب میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینا ہے۔

انڈین وزارتِ خارجہ نے امریکا، برطانیہ اور کینیڈا سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایس ایف جے کی سرگرمیوں پر پابندی لگائیں۔ حال ہی میں انڈیا نے واشنگٹن سے درخواست کی کہ ایس ایف جے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔

سکھ رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ انڈین ایجنسیاں بیرون ملک سکھوں کو ہدف بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکی ادارے فی الحال خالصتان ریفرنڈم کو اظہارِ رائے کی آزادی کے زمرے میں دیکھ رہے ہیں، لیکن انڈیا کی جانب سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ اسے علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جائے۔

مزید پڑھیں: ہر سال وہی کہانی، وہی نقصان: خیبرپختونخوا میں سیلابی پانی پھر سے زندگیاں کیوں نگلنے لگا؟

یو ایس میں حقوق انسانی اور اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ ایس ایف جے کے مؤقف کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ حقوق انسانی کارکنوں اور سکھ برادری کی تنظیموں نے کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت خود اظہارِ رائے کے حقوق کو مقابلہ سمجھتی ہے۔

خالصتان ریفرنڈم کوئی عام سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ ایک ایسا سوال ہے جو سکھ برادری کی نسل در نسل تکلیف اور شناخت کی جستجو سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں سکھ اس ریفرنڈم میں ووٹ ڈال کر اپنے خواب کو علامتی انداز میں دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ریفرنڈم کے کیا نتائج نکلیں گے اور کیا سکھوں کا خواب عالمی اداروں تک پہنچے گا یا انڈیا کے دباؤ تلے دب جائے گا؟

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس