پنجاب گروپ آف کالجز کے چیئرمین میاں عامر محمود نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بڑے صوبوں کے مسائل کا حل یہ ہے کہ موجودہ ڈویژنز کو صوبے بنا دیا جائے۔
ان کے مطابق پنجاب میں لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، گجرانوالہ اور راولپنڈی سمیت دس ڈویژنز ہیں جنہیں علیحدہ صوبوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کو الگ صوبے بنانے کی آوازیں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا سندھ میں کراچی کو الگ صوبہ بنایا جانا چاہیے کیونکہ اس شہر میں آج بھی دبئی جیسے ترقیاتی امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر ڈویژنل کمشنر کو چیف سیکرٹری کا درجہ دے دیا جائے تاکہ صوبائی سطح پر گورننس بہتر ہو سکے۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے قیام سے عوامی مسائل فوری طور پر حل ہوں گے، بجٹ کا بہتر استعمال ممکن ہوگا اور عوام کو اپنے نمائندوں تک براہ راست رسائی حاصل ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں صرف اسی وقت عوام کی خدمت کر سکتی ہیں جب مقامی سطح پر اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں۔
مزید پڑھیں: میں پاکستان ہوں
پاکستام میٹرز کے صحافی نے سوال کیا کہ کیا صدارتی نظام رائج ہو جائے گا یا پارلیمانی نظام رہے گا اور جب ملک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیں گے تو “ڈیوائیڈ اینڈ رول” کی پالیسی اپنائی جائے گی؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے جواب دیا کہ اس طرح “ڈیوائیڈ اینڈ رول” نہیں ہوتا بلکہ عوام کو فائدہ ہوگا۔ جب ملک میں سٹیک ہولڈرز بڑھ جائیں گے تو زیادہ فائدہ ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے جس کے چار صوبے ہیں، لیکن اس نظام کے تحت عام شہریوں کے مسائل حل نہیں ہو پاتے۔
فیڈرل حکومت دفاع، تجارت اور خارجہ پالیسی جیسے معاملات پر توجہ دیتی ہے جبکہ عوام کے روزمرہ کے مسائل، صفائی، انفراسٹرکچر، انصاف اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا کام صوبوں اور بالخصوص مقامی حکومتوں کا ہے، لیکن افسوس کہ ملک میں 78 سال گزرنے کے باوجود لوکل گورنمنٹ کا نظام تسلسل سے نہیں چل سکا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی بڑی فیڈریشنز میں صوبوں اور انتظامی یونٹس کی تقسیم زیادہ ہے۔ بھارت میں 28 ریاستیں اور 9 یونین ٹیریٹریز ہیں، امریکا میں 50 ریاستیں ہیں، جبکہ چین میں 31 سب نیشنل یونٹس ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے لیکن اس میں صوبوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ پنجاب اکیلا 53 فیصد آبادی رکھتا ہے جو باقی تینوں صوبوں کو ملا کر بھی زیادہ ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے گورننس کا نظام مؤثر نہیں ہو پاتا۔
میاں عامر محمود نے طلبہ اور اساتذہ سے کہا کہ یہ بحث کسی سیاسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ ایک مثبت اور بامقصد ڈسکشن کے لیے ہے تاکہ نوجوان نسل کو صحیح سمت دکھائی جا سکے۔