’مولانا فضل الرحمان، زرداری، نواز شریف اور ایم کیو ایم اگر وسیع تر قومی مفاد میں ایک ہوسکتے ہیں تو لاہور کی دو بڑی کاروباری حریف شخصیات کے ساتھ بیٹھنے پر بھی حیرانی ہر گز نہیں ہونی چاہیے، جنریشن زی کو خواب دکھانے کے سفر کا آج آغاز ہوچکا ہے، ون یونٹ سے لے کر اٹھارویں ترمیم تک تجربے ہوچکے ہیں، ایک اور تجربہ سہی، کیونکہ پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے اور یہاں جنگ کے ڈیزائن بھی سیاست دان ہی بناتے ہیں۔‘
یہ الفا ظ چوری کے ہیں جو میں نے سید امجد بخاری کی فیس بک دیوار سے اٹھائے ہیں، الفاظ اچھے ہیں جو انہوں نے میاں عامر محمود کی طرف سے پیش کیے گئے ’نیا صوبہ فارمولا‘ تقریب میں شرکت کے بعد لکھے ہیں۔ بخاری صاحب نے ریفریشمنٹ کو جہاں حلال کیا وہیں حق صحافت بھی ادا کیا ہے۔
پریس کانفرنس میں موجود نوجوان صحافیوں انس گوندل، عاصم ارشاد اورمیاں انیب نے بڑے سخت سوالات کیے جو عموماً صحافی نہیں کرتے۔ ایسی تقریبات میں تو بالکل نہیں جہاں کھانا بھی ہو۔
پاکستان میٹرز کے نمائندے عاصم ارشاد نے سوال اٹھایا کہ تمام ڈویژنز کو صوبے بنانے کے بعد کوئی 32 نئے وزراء اعلیٰ بنیں گے اور ان سب کو سنبھالنے کے لیے کیا پارلیمانی نظام ہی رہے گا یا پھر صدارتی نظام لایا جائے گا؟
میزبان کا جواب جو بھی تھا مگر اس سوال نے صدارتی نظام کی بحث کو ایک بار پھر جنم دیا ہے، یہ بحث مزید طویل ہوگی کیونکہ اس سے پہلے بھی ملک کی طاقتور شخصیت کو صدرمملکت بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔
اس سے پہلے بھی صدارتی نظام کے بارے میں شوشے چھوڑے جاتے رہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجاتے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ’’پاکستان کے مسائل کا واحد حل صدارتی نظام ‘‘ ہے۔
کچھ لوگ تو صدارتی نظام کو اسلامی نظام سے نتھی کرتے دکھائی بھی دیے۔ ایک قومی ٹی وی چینل پرتو اس کے اشتہارات بھی دھڑلے سے نشر ہوتے رہے۔
اس مہم کے ناقدین کہتے ہیں کہ ہائبرڈ سیاسی نظام ناکام ہوچکا ۔’’باجوہ ڈاکٹرائن ‘‘ کسی کام نہیں آیا تو اس لئے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے، کیا یہ محض ایک شوشہ ہے؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ کیا یہ اسمبلی صدارتی نظام لانے قابل ہے؟
اس وقت پاکستان کی حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں تقسیم ہے، سرمچار آزادی مانگتے پھر رہے ہیں، وہ بندوق کے ذریعے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں، خیبر پختونخوا میں آئے روز دہشتگردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں حقوق کے نام اکثر شاہراہ قراقرم بند ملتی ہے۔
عمران خان کے نام پر یوٹیوب سے کمانے والے دنیا بھر میں بیٹھے نوخیز ذہنوں میں نفرت ٹھونسنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں نئے صوبوں کا قیام کی بات ہضم نہیں ہورہی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام ضروری ہے، نئے صوبے بنیں گے تو عوام کے مسائل عوام کی دہلیز پر حل ہوپائیں گے، ہم سے کم آبادی والے ممالک میں کئی صوبے ہیں اور وہ بہت اچھے انداز میں نظام سلطنت بھی چلا رہے ہیں۔
پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں بھی نئے صوبوں کے قیام کے حق میں ہیں، کوئی انتظامی بنیادوں پر تقسیم چاہتا ہے تو کوئی لسانی بنیادوں پر مگر سبھی تقسیم پرمتفق ہیں۔
ملک کے مسائل کا حل جہاں نئے صوبوں کا قیام ہوسکتا ہے وہاں نئے عمرانی معاہدے کا طے پانا بھی ضروری ہے، جہاں تک ادارے سیاسی نظام میں جڑوں تک گھس چکے ہیں ان کو نکالیں گے تو درخت بھی نہیں بچے گا۔ ان کو سیاسی نظام میں حصہ دینا ضروری ہوچکا۔
نئے عمرانی معاہدے کے بغیر پاکستان میں کوئی نظام چلتا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی کسی ایک کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اب آتے ہیں آخری سوال کے جانب کہ پاکستان میں صدارتی نظام لانا ممکن ہے؟ ایک طریقہ ہے آئین میں تبدیلی کی جائے، آئین میں تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب کسی جماعت کے پاس دوتہائی اکثریت ہوگی۔ اس وقت اسمبلی میں کسی جماعت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں مگر حکومتی اتحاد مل کر سب کچھ کرسکتے ہیں۔
صوبائی اسمبلیاں نئے صوبوں کے قیام کے لیے قانون سازی کرسکتی ہیں۔ اور قومی اسمبلی سیاسی نظام کو بدلنے کی سکت رکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت صدارتی نظام نہ تو پی ٹی آئی چاہتی ہے، نہ ن لیگ کا مطالبہ ہے، پیپلز پارٹی نے تو زیادہ تر صدارتی اختیارات پارلیمنٹ یا وزیر اعظم کو تفویض کردیے تھے، ان پر تو ہرگز انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔
جے یو آئی اور جماعت اسلامی تو کوئی اور نظام چاہتے ہیں پھر یہ شوشہ کون چھوڑ رہا ہے،اس کی تلاش باقی ہے۔ ایسے کون سے ’’چوہے‘‘ ہیں جو پارلیمانی نظام کی کشتی میں سوراخ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی کو پتا چلے تو مجھے بھی ضروربتائیے گا۔
نوٹ: بلاگر کی ذاتی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر