روس نے یوکرین پر اس سال کے سب سے بڑے فضائی حملوں میں سے ایک حملہ کیا، جس میں یوکرینی فضائیہ کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب 574 ڈرون اور 40 بیلسٹک اور کروز میزائل داغے گئے۔
یہ حملے بنیادی طور پر یوکرین کے مغربی علاقوں پر ہوئے، جہاں مغربی اتحادیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی فوجی امداد لائی اور ذخیرہ کی جاتی ہے۔ حکام کے مطابق ان حملوں میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ ڈرونز کے لحاظ سے روس کا اس سال تیسرا بڑا فضائی حملہ تھا، جبکہ میزائلوں کی تعداد کے اعتبار سے آٹھواں بڑا۔ زیادہ تر روسی حملوں میں عام شہری علاقے نشانہ بنتے ہیں۔
یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں جنگ بندی اور امن معاہدے کے لیے نئی سفارتی کوششیں تیز کی جا رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی تھی اور رواں ہفتے کے آغاز پر وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر ولودیمیر زیلینسکی اور یورپی رہنماؤں سے ملاقات کی۔

یوکرین اور یورپی رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ پیوٹن امن مذاکرات کو طول دے رہے ہیں، جن میں جنگ بندی کی تجویز اور زیلینسکی کی براہِ راست ملاقات کی پیشکش شامل ہے۔
کریملن نے ان تجاویز پر سرد ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ زیلینسکی نے رات کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے کیا گیا “جیسے کچھ بھی بدل نہیں رہا۔”
زیلینسکی کے مطابق ماسکو نے جنگ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ روس پر مزید سخت دباؤ ڈالے، جس میں سخت پابندیاں اور محصولات شامل ہوں۔
دوسری طرف یوکرین نے بھی روس کے اندر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرون حملوں کو جاری رکھا ہے، جن میں تیل صاف کرنے والے کارخانے بھی نشانہ بنے ہیں۔
اس کے نتیجے میں روس میں پیٹرول کی تھوک قیمتیں ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہیں۔ یوکرینی وزیر خارجہ آندری سائبیا نے کہا کہ روس نے مغربی یوکرین میں “ایک بڑی امریکی الیکٹرانکس کمپنی” کو نشانہ بنایا۔ مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں، البتہ زیلینسکی نے کہا کہ وہ کمپنی گھریلو آلات تیار کرتی ہے۔

مغربی یوکرین میدانِ جنگ سے دور ہے، جہاں مشرق اور جنوب میں خونی لڑائی میں دونوں طرف سے لاکھوں فوجی مارے جا چکے ہیں۔
زیلینسکی نے کہا کہ یوکرین آئندہ دس دن میں اپنے اتحادیوں سے سکیورٹی ضمانتوں کے بارے میں واضح صورتحال جاننے کے لیے اہم اجلاس کرے گا، اور پھر وہ پہلی بار پیوٹن کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔ یہ مذاکرات ممکنہ طور پر سہ فریقی فارمیٹ میں ٹرمپ، زیلینسکی اور پیوٹن کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے مقام پر غور کیا جا رہا ہے، جس میں سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور ترکی ممکنہ آپشن ہیں۔ دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ یوکرین کے لیے سکیورٹی انتظامات پر ماسکو کی شمولیت کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا لاہور میں ’یوکوہاما‘ بنانے کا خواب: کیا ایسا ممکن ہوپائے گا؟
زیلینسکی نے بتایا کہ پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے امریکی صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ میدانِ جنگ کی صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی پیوٹن بتا رہے ہیں۔
ان کے مطابق امریکی نقشے میں بھی غلطیاں تھیں، جن میں دکھایا گیا کہ روس کے پاس اصل سے زیادہ علاقہ موجود ہے۔