پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پانی کی قلت تیزی سے سنگین بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے، جو مستقبل قریب میں شدید آبی قلت سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کے شدید بحران کے باوجود حیران کن حد تک قیمتی پانی کا ضیاع جاری ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد زیادہ تر ڈیم بھر چکے ہیں، مگر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش محض 13.68 ملین ایکڑ فٹ (ایک اے ایف) ہے۔
سیاسی و عوامی حلقوں میں اس سوال نے جنم لیا ہے کہ جہاں بارشوں اور دریاؤں کی صورت میں وافر پانی دستیاب ہے، وہاں یہ بحران پیدا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا سیدھا جواب ناقض حکمتِ عملی اور وسائل کے درست استعمال کی کمی ہے ۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی دستیاب ہے، لیکن اس میں سے تقریباً 30 فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔ گلیشیئرز سے آنے والا پانی ہو یا مون سون بارشوں کا بہاؤ، ہمارے پاس مؤثر ذخیرہ اندوزی کے ذرائع موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اپنی فصلوں کے لیے بھی مناسب پانی فراہم نہیں کر پا رہا۔
معروف ہائیڈرولجسٹ ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے المیہ یہ نہیں کہ ڈیم خشک ہو چکے ہیں بلکہ المیہ اس بات کا ہے کہ دریائے سندھ بند کوٹری بیراج سے تجاوز نہیں کر رہا، ڈیلٹا کو ریت، مٹی اور تازہ پانی سے محروم کیا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت پاکستان کے آبی نظام کی سب سے بڑی خامی کی عکاسی کرتی ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے بجائے براہِ راست سمندر میں چلا جاتا ہے اور ڈیلٹا کی زرخیزی بھی ختم ہو رہی ہے۔

ماہرینِ ڈیم کنسٹرکشن کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے ڈیم تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ یہ دو سے تین سال میں تعمیر ہو جاتے ہیں اور لاگت بھی کم ہوتی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کو 2050 تک تقریباً 76 MAF اضافی پانی درکار ہوگا اور یہ صرف چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے ممکن ہے۔
لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا چھوٹے ڈیم پاکستان جیسے ملک میں مستقل حل ہیں؟
کنگز کالج لندن کے پروفیسر دانش مصطفیٰ نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ چھوٹے ڈیم صرف تب ہی مؤثر ہیں، جب زیرِ زمینی پانی میٹھا ہو۔ سندھ جیسے علاقوں میں جہاں 80 فیصد زیر زمین پانی نمکین ہے، وہاں یہ طریقہ کارگر نہیں۔ حکومت کو کم پانی چلنے والی فصلوں کی کاشت اور ٹیوب ویل کے لیے بجلی سبسڈی روکنے پر توجہ دینی چاہیے۔
اس رائے سے واضح ہے کہ ہر خطے کے لیے ایک ہی پالیسی کارآمد نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو مقامی ضروریات کے مطابق مختلف حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔
پاکستان کی کل قابلِ کاشت زمین 76.43 ملین ایکڑ ہے، جن میں سے تقریباً 60 ملین ایکڑ زیرِ کاشت ہے، جب کہ 20 ملین ایکڑ زمین بنجر اور ویران پڑی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ ضائع ہونے والا پانی محفوظ کرلیا جائے تو زرعی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ صرف ایک ملین ایکڑ فٹ پانی بچا کر 8 لاکھ 77 ہزار ایکڑ زمین زیرِ کاشت لائی جا سکتی ہے۔ اگر پورے 14 ملین ایکڑ فٹ پانی کو استعمال کیا جائے تو 12.2 ملین ایکڑ زمین آباد ہوسکتی ہے، جس سے اربوں ڈالر کی اجناس حاصل کی جا سکتی ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق اگر صرف گندم کی کاشت پر یہ پانی استعمال ہو تو کم از کم 4.2 ارب ڈالر مالیت کی پیداوار حاصل ہوگی اور اگر جدید طریقہ کاشت اپنایا جائے تو یہ مالیت 12 سے 14 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یعنی یہ پانی پاکستان کی معیشت کو سنبھال سکتا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ سمندر کی نذر ہو رہا ہے۔

پاکستان کا 90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اس میں بھی تقریباً 50 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ روایتی طریقہ آبپاشی، پرانی نہریں اور ناقص انفراسٹرکچر پانی کے ضیاع میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان کا 90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اس میں بھی تقریباً 50 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ روایتی طریقہ آبپاشی، پرانی نہریں اور ناقص انفراسٹرکچر پانی کے ضیاع میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر پاکستان کو اپنی زرعی صلاحیت پوری طرح بروئے کار لانی ہے تو پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں فوری اضافہ ناگزیر ہے۔ سمندر میں بہنے والے 14 MAF میٹھے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے تقریباً 170 چھوٹے ڈیم بنانے ہوں گے۔ یہ ڈیم کرم تنگی ڈیم جتنے بڑے ہونے چاہییں تاکہ ملک کے زیادہ سے زیادہ علاقے کو سیراب کیا جا سکے۔
پانی کے ضیاع اور سیلابوں کا براہِ راست تعلق جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی بگاڑ سے بھی ہے۔ پاکستان میں 1992 سے اب تک جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور دیگر پہاڑی علاقوں میں جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی نے ان خطوں کو “سیلابی فیکٹریوں” میں بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1992، 2010 اور 2025 کے تباہ کن سیلابوں نے اربوں کا نقصان کیا۔
جنگلات محض درخت نہیں بلکہ قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔ یہ بارش کے پانی کو جذب کرکے فلش فلڈز روکتے ہیں، زیرِ زمین پانی کو ریچارج کرتے ہیں، زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں اور زرعی مٹی کو زرخیز رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ ختم ہو جائیں تو ننگے پہاڑ بارش کا پانی روکنے کے بجائے اچانک تباہ کن سیلاب پیدا کرتے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کو ڈیمز، جدید ٹیکنالوجی اور مؤثر پالیسی کی ضرورت ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمتِ عملی کاغذوں میں تو بن جاتی ہے، مگر عملی اقدامات میں شدید کمی پائی جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں خیبرپختونخوا اور شمالی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بونیر میں اگست 2025 کے کلاؤڈ برسٹ نے کئی دیہات بہا دیے، بٹگرام میں لینڈ سلائیڈز نے قراقرم ہائی وے بند کردی، جب کہ باجوڑ اور مانسہرہ میں بار بار آنے والے اچانک سیلابوں نے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ گلگت بلتستان میں جنگلات کی کمی نے علاقے کو جنگلاتی آگ اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

ڈاکٹر عادل ظریف جیسے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ جب درخت ختم ہو جاتے ہیں تو پہاڑیاں 5 سے 8 ڈگری زیادہ گرم ہو جاتی ہیں، جس سے مون سون کی ہوائیں اچانک تیز بارشوں (کلاؤڈ برسٹ) کا باعث بنتی ہیں۔ ساتھ ہی لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے اور زمین کھسکنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں چراگاہوں کی حالت بھی سنگین ہے۔ ایک وقت میں جو چراگاہیں اپنی مکمل بایو ماس پیدا کر سکتی تھیں، آج وہ صرف 20 سے 30 فیصد صلاحیت پر رہ گئی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ہر تیسرے گھرانے کا انحصار مویشیوں پر ہے، لیکن چراگاہوں کی کمی اور بدانتظامی نے دیہی آبادی کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ صرف شجرکاری مہمات اس مسئلے کا حل نہیں۔ جب تک لکڑی کی مافیا کے خلاف سخت کارروائی نہیں ہوگی اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر نہیں ہوگی، تب تک پاکستان اس بحران سے نہیں نکل سکتا۔
پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اقدامات کی جائیں۔ 170 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر تاکہ بارش کا پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔ جنگلات کی بحالی اور کٹائی پر سخت پابندیاں تاکہ سیلابوں کو روکا جا سکے۔ زرعی جدید ٹیکنالوجی کا فروغ تاکہ پانی کے کم استعمال سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔
مزید پڑھیں: انسانی اسمگلنگ کی روک تھام اور امیگریشن میں سہولت کیلئے اے آئی ایپ تیار
ملک میں پانی کے بحران سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے اور بڑے ڈیمز کا متوازن نظام بنایا جائے، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے “ریچارج پٹس” اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور کم پانی والی فصلوں کو فروغ دیا جائے۔
اسی طرح ٹیوب ویلز کے بے جا استعمال پر قابو پایا جائے اور بجلی سبسڈی ختم کی جائے، صوبوں کے درمیان پانی کے بٹوارے پر شفافیت اور اتفاقِ رائے بھی قائم کی جائے تاکہ آپس میں اختلافات سے بھی بچا جاسکے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف خشک سالی، پانی کی قلت اور قحط کا خطرہ ہے، تو دوسری طرف اربوں ڈالر کے برابر پانی سمندر میں ضائع ہو رہا ہے۔ اگر یہ پانی محفوظ کیا جائے تو نہ صرف زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان اپنی معیشت کو بھی سنبھال سکتا ہے۔
پاکستان میں پانی کا بحران صرف وسائل کی کمی نہیں بلکہ پالیسی اور حکمتِ عملی کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ جب تک حکومت سنجیدگی کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی، چھوٹے ڈیمز اور زراعت کے جدید طریقے متعارف نہیں کرواتی، تب تک حالات یونہی رہیں گے اور یہ سوال بھی اپنی جگہ پر یونہی قائم رہے گا کہ پاکستان میں پانی کا بحران ہے یا پھر ناقص حکمتِ عملی؟ آخر کیوں ملک میں ضائع ہوتا ہوا پانی بچایا نہیں جاپارہا؟