ایک گرم دوپہر کا منظر ذہن میں لائیں۔ بچوں کی آوازیں اسکول آنگنوں میں گونج رہی ہیں، ٹیلی ویژن یا سوشل میڈیا پر ”جنریشن زی“ کے متعلق تنازعہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
یہ نسل بدتمیز ہو گئی ہے، اخلاق کہاں گئے؟ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا نسل زی واقعی بدتمیز ہے یا اس کی سوچ و لہجہ بدل رہا ہے؟
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر آثر اجمل کہتے ہیں کہ یہ صرف رویوں کا مسئلہ نہیں بلکہ طرزِ زندگی کی تبدیلی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جنریشن زی کی بول چال میں آزاد زبان کا استعمال بڑھ گیا ہے، اہتیارانہ انداز میں اظہار ان کے لیے آزادی کی علامت ہے۔ ماضی میں رسمی آداب ادب شمار کیے جاتے تھے، اب خود اعتمادی کی قیمت پہ یہ رواج بدل رہا ہے۔
فلاحی سماجی تجزیہ کار حماد عارف نے بھی پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ فرانسیسی لفظوں ہی کی تبدیلی سے انداز بدل گیا۔ سیلف ایکسپریشن اب ’بدتمیزی‘ نہیں بلکہ ایک شناخت کا حصہ ہے۔ جو چیز پرانی نسل بدتمیزی سمجھے، وہ اس نسل کے لیے اظہار کی نئی زبان بنتی جا رہی ہے۔
حقائق اس تبدیلی کو مؤثر انداز میں بتاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں 68 فیصد نوجوان بلا جھجھک اپنی بات کہتے ہیں، جب کہ 55 فیصد والدین سمجھتے ہیں کہ روایتی آداب اب نئے دور میں غیر موزوں رہ گئے ہیں۔ اس ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ نسل زی اپنی شناخت کی تلاش میں روایتی بندھنوں سے ہٹ رہی ہے۔

تعلیمی میدان میں بھی یہ تبدیلی رجحان پیدا کر رہی ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو میں ماہر تعلیم ڈاکٹر رمشا نعیم بتاتی ہیں کہ یہ نسل اپنے جذبے اور سوالات زیادہ کھل کر بیان کرتی ہے۔ خاموشی اب چند لمحوں کی روایت ہے اور وہ سچائی کی تلاش میں پرسکون شور کی ذمہ داری خود اٹھاتی ہے۔
ورک پلیس کے ماحول میں بھی اس فرق کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو میں صبیحہ شاہین، جو 27 سال سے نوجوانوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں، نے کہاکہ یہ نئی نسل زیرو وقت زلہری سچائی چاتی ہے، فرضی برداشت نہیں، بلکہ صاف بات چاہتی ہے۔ اس لیے جب وہ بلا خوف سوال پوچھیں یا روایتی انداز سے ہٹ کر جواب دیں، تو انہیں بدتمیز نہ سمجھا جائے، بلکہ ایک روشن ذہن کی زبان کہلائے۔
ویژوئل میڈیا اور زبان کے اتفاق سے، کچھ ہی عرصہ پہلے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ نسل زی کے زبان میں فحش کلمات کی عام استعمال بڑھ گیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ ڈیجیٹل پلیٹفارمز پر غیر سنسرڈ زبان کی رسائی اور معاشرتی اثرات ہیں، خصوصاً شہری مراکز میں۔ یہ اظہار کے آزادی اور شناخت کا حصہ بن گیا ہے۔
مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں کس طرح چرواہے نے درجنوں جانیں بچائیں: ’اصل فیلڈ مارشل تو یہی ہے جو نوبل پرائز کا حقدار ہے‘
سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث خیالات ہمیں اور تفہیم دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈایٹ پر ایک صارف نے لکھا کہ نوجوان نسل واقعی خود کو نافذ کرتی ہے، لوگ کہتے ہیں ہم غیر سنجیدہ ہیں، لیکن حقیقت میں ہم تبدیلی کی رفتار ہیں۔
ایک اور نے کہا کہ ہم سب سوچتے ہیں کہ روایتی انداز ہی درست ہے، لیکن وقت خود بتاتا ہے تبدیلی کیسے پیدا ہوتی ہے۔
یہ تبدیلیاں صرف منفی یا مثبت نہیں بلکہ یہ ایک سماجی انقلاب کی ترجمان ہیں۔ روایتی جہاں خاموشی میں شائستگی سنبھالتا تھا، نسل زی وہاں اظہار میں وقار تلاش کرتی ہے۔ وہ جب کوئی اعتراض اٹھاتی ہے، وہ خاموشی نہیں، بلکہ اپنی دنیا کو واضح کرنا چاہتی ہے۔

ماضی میں اس رویے کو والدین انیرجٹک، شوخ یا گستاخ سمجھتے تھے۔ مگر اب معاصر زمانے میں یہ سوال اہم ہے کیا ہم اپنی نوجوان نسل کو خود مختار سفر میں رہنے دیں؟ کیا ہمیں ان کی زبان کو سیکھنے کے لیے تیار ہونا ہوگا؟ کیونکہ یہی زبان آگے کی دنیا کو بناتی ہے۔
کیا ہم نئے لہجے سے خوفزدہ ہیں یا بیدار؟ اس سوال کے جواب سے طرزِ معاشرت میں تبدیلی کی سمت طے ہوگی اور وہ صرف روایات نہیں، بلکہ ایک قوم کی اگلی سوچ بنے گی۔