اسرائیل نے پیر کے روز غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں ناصر اسپتال کو نشانہ بنایا، جس میں کم از کم 20 افراد شہید ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ صحافی بھی شامل تھے جو رائٹرز، ایسوسی ایٹڈ پریس، الجزیرہ اور دیگر اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔
رائٹرز کے کیمرہ مین حسام المصری، جو اسپتال کی بالائی منزل پر لائیو براڈکاسٹ پوزیشن سے رپورٹنگ کر رہے تھے، پہلے حملے میں مارے گئے۔
اسپتال کے حکام اور عینی شاہدین کے مطابق اسرائیل نے کچھ دیر بعد اسی مقام کو دوبارہ نشانہ بنایا، جس میں دیگر صحافیوں کے ساتھ ساتھ ریسکیو ورکرز اور طبی عملہ بھی شہید ہوا۔
ہلاک ہونے والے صحافیوں میں مریم ابو دغا (ایسوسی ایٹڈ پریس)، محمد سلامہ (الجزیرہ)، معاذ ابو طہ (فری لانس، مختلف اداروں سے وابستہ) اور احمد ابو عزیز شامل تھے۔ رائٹرز کے فوٹوگرافر حاتم خالد زخمی ہوگئے۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ ایک “افسوسناک حادثہ” تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل صحافیوں اور طبی عملے کے کام کی قدر کرتا ہے اور جنگ صرف حماس سے ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چیف آف جنرل اسٹاف نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
رائٹرز نے اپنے بیان میں کہا “ہم کیمرہ مین حسام المصری کی ہلاکت اور معاذ ابو طہ کی موت پر غمزدہ ہیں۔ حاتم خالد زخمی ہیں اور ہم فوری طبی امداد کے لیے حکام سے رابطے میں ہیں۔”
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واقعے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک “ڈراونا خواب” ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی شدید دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ مریم ابو دغا اکثر اسپتال ہی سے رپورٹنگ کرتی تھیں۔
فلسطینی صدارتی دفتر نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔ فلسطینی صحافیوں کی تنظیم نے اسے “آزاد میڈیا کے خلاف کھلی جنگ” قرار دیا اور کہا کہ اب تک 240 سے زائد فلسطینی صحافی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 197 صحافی اور میڈیا ورکرز مارے جا چکے ہیں، جن میں 189 کا تعلق غزہ سے تھا۔
اسی روز ایک اور واقعے میں خان یونس کے علاقے مواسی میں اسرائیلی فائرنگ سے صحافی حسن دحان مارے گئے اور دیگر افراد زخمی ہوئے۔ دو ہفتے پہلے اسرائیل نے الجزیرہ کے نمایاں رپورٹر انس الشریف سمیت پانچ صحافیوں کو ہلاک کیا تھا، جس پر اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ شریف حماس کے لیے کام کرتے تھے، تاہم الجزیرہ نے اس کی تردید کی۔
ناصر اسپتال سے رائٹرز کا لائیو فیڈ، جو حسام المصری چلا رہے تھے، پہلے ہی دھماکے کے وقت اچانک بند ہوگیا۔ یہ اسپتال پچھلے کئی ہفتوں سے دنیا بھر کے میڈیا کو لائیو فیڈ مہیا کر رہا تھا۔
غزہ میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر اسرائیل کی پابندی کے باعث جنگ کے دوران رپورٹنگ کا انحصار صرف مقامی فلسطینی صحافیوں پر رہا ہے، جو کئی برسوں سے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے اکتوبر 2023 میں لبنان میں اسرائیلی ٹینک فائر سے ہلاک ہونے والے رائٹرز صحافی عصام عبداللہ کی ہلاکت کی تحقیقات کا بھی وعدہ کیا تھا، لیکن اب تک نتائج سامنے نہیں لائے۔
کینڈین فوٹو جرنلسٹ مستعفی
کینیڈین فوٹو جرنلسٹ ویلیری زنک نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نیوز ایجنسی سے منگل کو یہ کہہ کر ادارہ چھوڑدیا کہ زائٹرز اسرائیل کے پروپیگنڈے کو تقویت دے کر غزہ میں صحافیوں کے قتل میں براہ راست شریک ہے۔

روئٹرز کے لیےآٹھ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد ویلیری زنک، جن کی تصاویر نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اور دنیا بھر کے دیگر میڈیا اداروں میں شائع ہوتی رہی ہیں، نے فیس بک پر جاری اپنے بیان میں لکھا: ’اب میرے لیے روئٹرز کے ساتھ تعلق برقرار رکھنا ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ اس نے غزہ میں 245 صحافیوں کے منظم قتل کو جائز اور ممکن بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
’میں اپنے فلسطینی ساتھیوں کی کم از کم اتنی تو مقروض ہوں یا شاید اس سے بھی زیادہ۔‘
انہوں نے بتایا کہ 10 اگست کو جب اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی میں الجزیرہ کے صحافی انس الشریف اور ان کی پوری ٹیم کو قتل کیا تو روئٹرز نے اسرائیل کے اس بے بنیاد دعوے کو شائع کیا کہ انس الشریف حماس کے رکن تھے۔