Follw Us on:

غزہ میں شہید ہونے والا رائٹرز کا صحافی حسّام المصری کون تھا؟

حسیب احمد
حسیب احمد
Featured image (4)
حسّام المصری کی موت کے وقت وہ ناصر اسپتال کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر خان یونس کا منظر لائیو نشر کر رہے تھے۔ (تصویر: رائٹرز)

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے فلسطینی کیمرہ مین حسّام المصری پیر کے روز غزہ کے ناصر اسپتال میں لائیو ویڈیو فیڈ چلاتے ہوئے اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔

رائٹرز کی ویڈیو کے مطابق پہلا حملہ انہیں نشانہ بنا کر کیا گیا جس کے بعد چند منٹوں میں دوسرا حملہ بھی وہیں ہوا جس میں انیس افراد مارے گئے جن میں امدادی کارکن اور چار صحافی شامل تھے۔

 ان صحافیوں میں وہ بھی شامل تھے جو خبر رساں اداروں یعنی ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ کے لیے کام کرتے تھے۔ ان میں ایک صحافی معاذ ابو طہ بھی تھے جو رائٹرز سمیت دیگر اداروں کو ویژولز فراہم کرتے تھے۔

حسّام المصری کی موت کے وقت وہ ناصر اسپتال کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر خان یونس کا منظر لائیو نشر کر رہے تھے۔

رائٹرز کے فوٹوگرافر حاتم خالد اس دوسرے حملے میں زخمی ہوئے جب وہ پہلے حملے کے بعد کی صورت حال کی ویڈیو بنا رہے تھے۔

اسرائیلی فوج نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ صحافی ان کے حملے کا ہدف نہیں تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس واقعے کو افسوسناک غلطی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کو اس پر گہرا افسوس ہے۔

Featured image (5)
حسّام المصری کی عمر 49 برس تھی۔ وہ سن 1998 سے صحافت سے منسلک تھے۔ (تصویر: رائٹرز)

صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے بتایا ہے کہ غزہ کی جنگ میں اب تک ایک سو نواسی فلسطینی صحافی اسرائیلی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔

 کمیٹی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرایا جائے اور کہا کہ ذمہ داروں کو مزید کھلی چھوٹ نہ دی جائے۔

حسّام المصری گزشتہ کئی ماہ سے جنگ زدہ حالات میں خیمے میں مقیم تھے اور اپنے اہل خانہ کے لیے خوراک تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔

حسّام المصری کی عمر 49 برس تھی۔ وہ سن 1998 سے صحافت سے منسلک تھے اور متعدد اداروں کے ساتھ کام کر چکے تھے جن میں فلسطینی براڈکاسٹنگ کارپوریشن بھی شامل ہے۔

ان کے ساتھی صحافیوں کے مطابق وہ خطرناک ترین حالات میں بھی مثبت سوچ کے حامل تھے اور مشکل ترین دنوں میں بھی کہتے تھے کل بہتر ہوگا۔

حسّام المصری کی اہلیہ سمر کی عمر انتالیس برس ہے اور وہ کینسر کی مریضہ ہیں۔ حسّام ان کا علاج کرانے کے لیے غزہ سے باہر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے چار بچے ہیں جن کی عمریں 15  سے 23 برس کے درمیان ہیں۔

حسّام المصری خان یونس میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ ان کے بھائی عزالدین المصری کے مطابق حسّام کی خواہش تھی کہ دنیا کو غزہ کی اصل صورت حال دکھائی جائے۔

ان کا کہنا تھا کیمرہ حقائق کو ریکارڈ کرتا ہے چاہے وہ ہمارے حق میں ہوں یا خلاف۔ کیمرے نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو بھی دکھایا اور اسرائیلی فوجیوں کو بھی۔

Featured image (6)
ان کے ساتھی صحافیوں کے مطابق وہ خطرناک ترین حالات میں بھی مثبت سوچ کے حامل تھے۔ (تصویر: رائٹرز)

حسّام المصری کا گھر جنگ کے ابتدائی دنوں میں اس وقت تباہ ہوا جب اسرائیلی فوج نے خان یونس کے تمام شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا۔ ان کی واپسی جولائی 2024 میں ہوئی جب وہ ناصر اسپتال کے قریب ایک خیمے میں مقیم ہو گئے۔

وہ مئی 2024 میں رائٹرز سے بطور کنٹریکٹر وابستہ ہوئے۔ ان کا کام رفح اور جنوبی غزہ میں انسانی صورتحال پر لائیو نشریات دینا اور رفح کراسنگ سے امداد کے داخلے کی ویڈیو بنانا تھا۔

انہوں نے ناصر اسپتال سے رائٹرز کے لیے روزانہ لائیو فیڈ چلانا شروع کی جو عالمی سطح پر میڈیا ادارے استعمال کرتے تھے۔

رائٹرز کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ویژول ایڈیٹر لبیب ناصر کے مطابق حسّام نے یہ مشکل کام روزانہ کی بنیاد پر مسلسل کئی ماہ انجام دیا۔

ان کی آخری رپورٹ ہفتہ کے روز نشر ہوئی جس میں وہ اسرائیلی بمباری میں مارے جانے والے بچوں سمیت شہریوں کی لاشوں پر لواحقین کے غم کا احوال دکھا رہے تھے۔

محمد سالم، جو رائٹرز کے سینئر صحافی ہیں اور 2003 سے حسّام المصری کو جانتے تھے۔

ان کے مطابق حسّام نے ناصر اسپتال کو اس لیے منتخب کیا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ نسبتا محفوظ مقام ہے۔ حسّام نے آخری گفتگو میں خوراک کی کمی اور بدترین حالات کا ذکر کیا۔ اسی دن بعد میں ان کی لاش ایک اسٹریچر پر رکھی گئی۔

واضع رہے کہ صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیمیں  اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات اور جواب دہی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

Author

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس