امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے آج جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی طلبہ اور صحافیوں کے امریکا میں قیام کی مدت پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
یہ اقدام ملک میں قانونی امیگریشن کو مزید محدود کرنے کی تازہ کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
تجویز کے مطابق غیر ملکی طلبہ امریکا میں زیادہ سے زیادہ چار سال تک قیام کر سکیں گے، جبکہ غیر ملکی صحافیوں کو محض 240 دن تک قیام کی اجازت ہوگی۔
اگرچہ وہ مزید 240 دن کی توسیع کے لیے درخواست دے سکیں گے، لیکن چینی صحافیوں کے لیے قیام کی مدت صرف 90 دن رکھی گئی ہے۔
اس سے پہلے امریکا میں طلبہ کے ویزے عمومی طور پر ان کے تعلیمی پروگرام کے مکمل ہونے تک اور صحافیوں کے ویزے ان کے اسائنمنٹ کی مدت تک جاری کیے جاتے رہے ہیں، تاہم کسی بھی نان امیگرنٹ ویزے کی زیادہ سے زیادہ مدت 10 سال سے زیادہ نہیں رہی۔

یہ مجوزہ تبدیلیاں فیڈرل رجسٹر میں شائع کر دی گئی ہیں، جس کے بعد مختصر عوامی مشاورت کے بعد ان پر عمل درآمد ممکن ہوگا۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کا کہنا ہے کہ غیر ملکی طلبہ طویل عرصے تک تعلیم کا بہانہ بنا کر ملک میں قیام کرتے ہیں اور ’’ہمیشہ کے لیے طلبہ‘‘ بن جاتے ہیں، جو سیکیورٹی خطرات، ٹیکس دہندگان پر اضافی بوجھ اور امریکی شہریوں کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
تاہم اعداد و شمار اس موقف کی نفی کرتے ہیں۔ امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق صرف 2023 میں غیر ملکی طلبہ نے امریکی معیشت میں 50 ارب ڈالر سے زیادہ کا حصہ ڈالا۔
2023-24 کے تعلیمی سال میں امریکا میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ بین الاقوامی طلبہ نے تعلیم حاصل کی، جو دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔
امریکی یونیورسٹیوں کے نمائندہ گروپ نے اس اقدام کو ’’غیر ضروری بیوروکریٹک رکاوٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی طلبہ کی حوصلہ شکنی کرے گا، جو تحقیق اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
صدرز الائنس آن ہائر ایجوکیشن اینڈ امیگریشن کی سربراہ میرئم فیلڈبلم نے کہا کہ یہ مجوزہ قانون عالمی سطح پر امریکا کی مسابقتی برتری کو نقصان پہنچائے گا اور دنیا بھر کے باصلاحیت افراد کو یہ پیغام دے گا کہ ان کی قدر نہیں کی جاتی۔

اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کئی یونیورسٹیاں تعلیمی سال کے آغاز پر بین الاقوامی طلبہ کے کم ہوتے اندراج کی شکایت کر رہی ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ چند روز قبل صدر ٹرمپ نے خود کہا تھا کہ وہ امریکا میں چینی طلبہ کی تعداد دوگنا کر کے چھ لاکھ تک لے جانا چاہتے ہیں، جو کہ ان کے قریبی حلقے اور سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے سخت مؤقف سے بالکل مختلف ہے۔ روبیو نے پہلے چینی طلبہ کے ویزے سختی سے منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
محکمہ خارجہ کے مطابق ٹرمپ کے دور میں اب تک 6 ہزار طلبہ کے ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد ان سرگرم کارکنوں کی ہے جنہوں نے اسرائیل مخالف مظاہروں کی قیادت کی۔
ٹرمپ حکومت نے یونیورسٹیوں کے فنڈز بھی معطل کیے اور الزام لگایا کہ ادارے یہودی مخالف رجحانات کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر رہے۔ کانگریس نے بھی نجی جامعات کی انڈومنٹ پر ٹیکسز میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔
ٹرمپ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے انتخاب سے قبل ایک خطاب میں کہا تھا کہ قدامت پسندوں کو یونیورسٹیوں کو نشانہ بنانا چاہیے کیونکہ یہ ’’دشمن‘‘ ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت کے اختتام پر صحافیوں کے ویزوں کی مدت محدود کرنے کی تجویز دی تھی، تاہم ان کے جانشین جو بائیڈن نے یہ فیصلہ منسوخ کر دیا تھا۔