دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر مادھو پراساد نے کہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف یہودی اور مسلمان کا تنازع نہیں بلکہ زمین اور حقِ ملکیت کا معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ “ہم یہودیوں کو فلسطین میں بسنے کا حق دیتے ہیں”، تو یہ کیسے حق ہوا کہ کسی اور کی زمین پر کسی تیسرے کو آباد کر دیا جائے؟
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے لوگ کہاں جائیں گے، ان کے گھر وہیں ہیں، کھیت وہیں ہیں، وہ ان کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ “اگر کل کوئی یہ کہہ دے کہ یورپ کو ہندوستان میں بسنے کا حق ہے تو کیا ہم خوش رہیں گے یا اس کے خلاف کھڑے ہوں گے؟”۔
ڈاکٹر مادھو پراساد نے واضح کیا کہ فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ یہودی اور عیسائی بھی صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ تاہم، صیہونی تحریک (Zionism) کے حامی صرف اُن یہودیوں کو تسلیم کرتے ہیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کو وہاں سے بے دخل کر کے “گریٹر اسرائیل” بنانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سوچ انسانی اور اخلاقی اصولوں کے منافی ہے اور دنیا میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔