بھاری بارشوں اور انڈیا کی جانب سے پانی چھوڑنے کے باعث پنجاب کو تباہ کن سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا, جس پر صوبائی حکومت نے بڑے پیمانے پر ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے لیے فوج کو طلب کر لیا ہے۔
انسانی جانوں اور بنیادی ڈھانچوں کو بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کے تحت حکام نے دریائے چناب پر قادرآباد ہیڈ ورکس کے قریب بند توڑ دیا تاکہ ڈھانچے پر دباؤ کم کیا جا سکے اور پانی کے تباہ کن زور کو روکا جا سکے۔
اس اقدام کے باوجود وسیع علاقے زیرِ آب ہیں، جن میں کرتارپور گردوارہ بھی شامل ہے جو سکھوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ سیلابی پانی احاطے میں داخل ہو گیا جس سے زیارت کا عمل متاثر ہوا اور درجنوں یاتری پھنس گئے جنہیں کشتیوں کے ذریعے نکالا گیا۔
ریسکیو 1122 کے مطابق سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال میں کم از کم سات افراد، جن میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد شامل ہیں، سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ دریائے چناب پر قادرآباد ڈیم کے قریب بند کو دباؤ کم کرنے کے لیے توڑا گیا۔

پنجاب بھر میں ریسکیو آپریشن جاری ہیں جہاں گھروں، دکانوں اور کھیتوں کو پانی نے ڈبو دیا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تصدیق کی ہے کہ اب تک 2 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ مزید انخلا کی تیاریاں جاری ہیں کیونکہ دریائے چناب، راوی اور ستلج خطرناک سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
پنجاب حکومت نے لاہور، قصور، سیالکوٹ، فیصل آباد، نارووال، اوکاڑہ، سرگودھا اور حافظ آباد میں فوجی امداد طلب کی ہے۔ فوجی یونٹ لوگوں اور مویشیوں کے انخلا میں مدد کر رہے ہیں جبکہ ریسکیو ٹیمیں حساس علاقوں میں پہنچا دی گئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق دریائے راوی، ستلج اور چناب میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے۔ قصور، اوکاڑہ اور بہاولنگر کے اضلاع میں دیہات پہلے ہی زیرِ آب آ چکے ہیں اور کھڑی فصلیں پانی میں ڈوب گئی ہیں۔
ضلعی انتظامیہ نے عارضی ریلیف کیمپ قائم کر دیے ہیں اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ ایک ضلعی افسر نے بتایا “ہم پانی مزید بڑھنے سے پہلے لوگوں کو ہٹا رہے ہیں۔ ہماری پہلی ترجیح انسانی جانیں بچانا ہے، پھر روزگار۔”
سرگودھا، لودھراں، ملتان اور مظفرگڑھ کے ڈپٹی کمشنرز نے ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ ریکارڈ پانی کی آمد درجنوں دیہات کو متاثر کر سکتی ہے۔

بورے والا سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سیلابی پانی نے حفاظتی بند توڑ دیے جس سے لاکھا سالدیرا، میاں پور اور مَدهڑ سمیت کئی دیہات ڈوب گئے اور کھیت کھلیان زیرِ آب آ گئے۔
مظفرگڑھ میں حکام نے دریائے چناب کے موجودہ ریلا کو 2014 کے بعد سب سے بڑا قرار دیا ہے، خبردار کرتے ہوئے کہ 9 لاکھ کیوسک پانی مارالہ سے نیچے کی جانب بڑھ رہا ہے جو جلد رنگ پور کو متاثر کر سکتا ہے۔
وزارتِ آبی وسائل نے تنبیہ کی ہے کہ آنے والے دنوں میں انتہائی بلند سیلابی سطح متوقع ہے کیونکہ انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے بڑے ڈیموں کے تمام گیٹ کھول دیے ہیں۔ اس دوران کرتارپور میں زیارت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، اگرچہ مرکزی عمارت بلند جگہ پر ہونے کے باعث محفوظ بتائی گئی ہے۔
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ نے 29 اگست سے 2 ستمبر تک پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور سندھ و بلوچستان کے کچھ حصوں میں مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہنگامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی اداروں کو فوری وارننگز، بروقت انخلا اور ریلیف کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت دی۔

انہوں نے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے درمیان قریبی تعاون پر زور دیا اور سندھ میں بھی پیشگی اقدامات کی ہدایت دی۔
وزیراعظم کو بتایا گیا کہ ہیڈ مارالہ اور کھنکی پر بلند سطح کے سیلاب کا خطرہ ہے جبکہ دریائے راوی پر جستر اور شاہدرہ اور دریائے ستلج پر گنڈا سنگھ والا اور سلیمانکی کے مقامات پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
شہباز شریف نے سندھ کے لیے بھی قبل از وقت وارننگ سسٹم اور موثر انخلا کے اقدامات کی ہدایت دی۔
جون کے آخر سے شروع ہونے والے مون سون کے دوران اب تک ملک بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 802 ہو چکی ہے، جن میں نصف اموات اگست میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ حکام کے مطابق شمالی پاکستان میں ہزاروں افراد کئی روز سے پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ صورتحال 2010 کے تباہ کن سیلاب اور 2014 کے پنجاب کے تباہ کن سیلاب کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے وسیع علاقے کو ڈبو دیا تھا۔