افغانستان کے مشرقی حصے میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب آنے والے زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد 1400 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔
طالبان حکومت نے منگل کو یہ اعداد و شمار جاری کیے جس کے بعد یہ زلزلہ کئی دہائیوں میں آنے والے مہلک ترین زلزلوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔
چھ شدت کا یہ زلزلہ رات گئے پاکستان کی سرحد کے قریب پہاڑی صوبوں میں آیا اور دور دراز کے علاقوں کو بری طرح متاثر کیا۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق صرف کنڑ صوبے میں 1411 افراد ہلاک اور 3124 زخمی ہوئے ہیں۔ ننگرہار میں بھی درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے رابطہ کار اندریکا رتواتے نے کہا ہے کہ زلزلے سے لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ کنڑ میں گھروں کے ملبے تلے دبے افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن پوری رات جاری رہا۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ احسان اللہ احسان نے بتایا کہ کئی زخمی اب بھی دور دراز دیہات میں موجود ہیں جنہیں ہسپتالوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم درست طور پر نہیں کہہ سکتے کہ ملبے تلے کتنی لاشیں موجود ہیں، لیکن کوشش ہے کہ ریسکیو آپریشنز جلد مکمل ہوں اور متاثرہ خاندانوں کو فوری امداد فراہم کی جائے۔
افغانستان کو اس صورتحال میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ جنوری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یو ایس ایڈ کی فنڈنگ میں کٹوتی اور دیگر امدادی پروگراموں میں کمی کے بعد فنڈز پہلے ہی محدود تھے۔
طالبان کی پالیسیوں اور امدادی کارکنوں پر پابندیوں کے باعث ڈونرز کی ناراضگی بھی فنڈنگ میں کمی کی ایک بڑی وجہ بنی ہے، جس سے زلزلے کے بعد امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
زلزلے کے بعد برطانیہ نے اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی کوششوں کے لیے دس لاکھ پاؤنڈ دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ متاثرین کو طبی امداد اور ضروری سامان فراہم کیا جا سکے۔
چین نے بھی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ انڈیا نے ایک ہزار فیملی ٹینٹ اور 15 ٹن خوراک کنڑ بھیج دی ہے اور مزید امداد بھی روانہ کر رہا ہے۔
افغانستان میں اس سے پہلے بھی جان لیوا زلزلے آتے رہے ہیں، خاص طور پر ہندوکش کے علاقے میں جہاں انڈین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں۔

سنہ 2022 میں مشرقی افغانستان میں چھ اعشاریہ ایک شدت کے زلزلے نے ایک ہزار جانیں لے لی تھیں، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلا بڑا قدرتی سانحہ تھا۔
زلزلہ پیما مرکز نے بعد ازاں اسلام آباد، راولپنڈی، چترال اور پشاور میں آفٹر شاکس کی بھی تصدیق کی۔ پاکستان میں کسی بڑے نقصان یا جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
کابل انتظامیہ کے مطابق افغانستان میں سب سے زیادہ تباہی کنڑ صوبے میں ہوئی، جہاں چوکی کے یوہ گل اور نورگل کے مزار درہ جانے والی اہم سڑکیں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند ہو گئی ہیں، جس سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں تک فضائی راستے سے بھی امداد پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ دور دراز علاقوں سے ابھی بھی مکمل معلومات نہیں پہنچ سکیں۔
بعض مقامات پر اب بھی وقفے وقفے سے جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں جس کے باعث مقامی لوگ خوفزدہ ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا ہے کہ گذشتہ شب افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں اموات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون دینے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غم کی گھڑی میں ہماری ہمدردیاں متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں اور پاکستان کے عوام اور حکومت کی جانب سے میں سوگوار خاندانوں کے لیے دلی تعزیت اور دعاؤں کا اظہار کرتا ہوں۔‘