رات گئے ہیڈ سدھنائی کے قریب مائی صفوراں کے مقام پر توڑے گئے بند نے ملحقہ آبادیوں میں تباہی پھیلانی شروع کردی ہے، اس وقت پانی اروتی، درکھانہ، گھگھ بار اور کوٹ اسلام کے علاقوں میں داخل ہوچکا ہے۔
کروڑوں روپے کی فصلیں برباد ہوچکی ہیں، مکانات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ضلع خانیوال کی انتظامیہ کا اس وقت کہیں بھی نام نشان نہیں۔ کسی بھی ایمرجنسی میں حالات بگڑ سکتے ہیں۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ اس علاقے میں بسنے والے زیادہ ترافراد تیسرے درجے کے غریب ہیں، کسی کے پاس دو تو کسی کے پاس پانچ ایکڑ اراضی ہے، 10 ایکڑرکھنے والے کو بڑا زمیندار سمجھا جاتا ہے۔
جب مقامی افراد سے سہولیات کے بارے میں پوچھا گیا تو زیادہ تر لوگ حکومت سے ناراض نظر آئے۔ ریلیف کے کاموں کے فقدان کا شکوہ کیا۔
درکھانہ کے رہائشی مہر عبدالرحمان نے بتایا کہ اس وقت پانی بہت زیادہ ہے، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، سب کی توجہ شہری علاقے کو بچانے کی طرف ہے۔
بات کی جائے متاثرہ علاقوں کی تو ان میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے 12 اور ضلع خانیوال کے 14 دیہات شامل ہیں۔ اس ایریا میں تقریباً بیس سے پچیس ہزار افراد بستے ہیں جو اپنے گھر خالی کرکے محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں۔

مقامی صحافی رجب علی بھٹی نے بتایا کہ متاثرین اپنے اپنے رشتہ داروں کی جانب چلے گئے ہیں، جو بچ گئے ہیں وہ حفاظتی بند پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ حکومتی اداروں نے ریلیف کیمپ تو لگائے ہیں مگر مریم نواز کی تصاویر کے علاوہ کوئی سہولیات نہیں۔
یہاں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے بھی اپنے اپنے گھروں اور زمینوں کو محفوظ بنانے میں مصروف نظر آئے۔
وفاقی وزیربرائے دفاعی پیداوار بیرسٹر رضا حیات ہراج سے جب سوال کیا گیا کہ حفاظتی بند کون توڑ رہا ہے اور اس کا حتمی فیصلہ کون کرتا ہے تو قہقہہ لگاتے ہوئے بولے کہ ڈی سی او، ڈی پی او،سول ڈیفنس اور فوج کے افراد مل کر طے کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟
انہوں نے مزید بتایا کہ متاثرین کے ریلیف کے لیے انتظامیہ فعال ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو۔ ہم متاثرین کی بحالی تک کام کریں گے۔
قومی اسمبلی میں اس وقت بلدیاتی اداروں کی بحالی اور نئے ڈیمز کی تعمیر کے بات ہورہی ہے۔ بلدیاتی نمائندے اس وقت کام کررہے ہوتے تو ریلیف کے کاموں مشکل پیش نہ آتی۔ وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم کتنے بند باندھیں گے، ہمارے ملک میں بلدیاتی ادارے بے دست و پا ہیں، پنجاب میں تو ہیں بھی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ونڈ کھاؤ تے کھنڈ کھاؤ۔
بلدیاتی ادارے بحال کرنے کی ضرورت ہے، الیکشن ضروری ہوگئے ہیں۔ عوام کو طاقت دینی پڑے گی ۔ گلیوں، محلوں میں کام کرنے والے بلدیاتی اداروں کی ضرورت ہے۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئرمین ضلع کونسل خانیوال انجینئر رضا محمد سرگانہ نے کہا کہ دریائے راوی و دریائے چناب سے شدید طور پہ مواضعات کُنڈسرگانہ، خطپورسندہ، جہانہ مرالی، چک نورنگ شاہ، باٹی شمالی، بڑجھ شمالی و دیگر ملحقہ مواضعات متاثر ہوئے ہیں۔ کئی بستیوں میں پانی داخل ہوا ہے۔
بیشتر لوگوں کے گھر منہدم ہو گئے ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ، پھر اس جگہ سے دوسری جگہ، نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیلابی پانی نے کسی کو معاف نہیں کیا پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ارکان اسمبلی، وزرا کی زمین ڈوب گئی ہیں۔ حکومت متاثرین کے بحالی کے لیے کام کررہی ہے۔ ہم خود بھی متاثرہ ہیں مگر لوگوں کی مدد کے لیے ہروقت تیار ہیں۔
بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتیں دراصل عوام کی نچلی ترین سطح پہ نمائندگی کرتی ہیں اور نمائندےاپنے مسائل کی ترجیحات کو ازسرِ نو ترتیب دے کروسائل کے مطابق حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جس سے عام آدمی کے بلواسطہ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
’یہ حقیقت تو بہر کیف جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہر دفعہ جمہوری ادوار میں ہی مقامی حکومتوں پہ شب خوں مارا جاتا رہا ہے، تاکہ اختیارات کو نچلی ترین سطح سے چھین کر مرکز تک ہی محدود کر دیا جائے‘۔
اس وقت سیلاب متاثرین کو کون سی اشیاء کی ضرورت ہے؟ کیا حکومت ریلیف کے کام کررہی ہے تو اس پر الخدمت فاؤنڈیشن تحصیل کبیروالا کے سرپرست مہر عارف تھراج نے کہا کہ انتظامیہ تو بند توڑنے میں بھی ٹھیک فیصلہ نہیں کرسکی۔ جب دریائے راوی کا پانی ہیڈ کے اوپر سے گزرنے لگا تو تب مائی سپوراں کا بند توڑا گیا۔ اب بھی عبدالحکیم شہر کو خطرہ ہے۔

حکومت ریلیف کے حوالے سے کوئی کام نہیں کررہی ۔ متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت پناہ لے چکے ہیں، حکومتی نمائندے بھی منظر سے غائب ہیں۔ الخدمت متاثرین کو ریلیف فراہم کرے گی۔ مچھروں کی بہتات ہونے کا خدشہ ہے جس سے علاقے میں بیماریاں پھیلیں گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز جہاں لاہور کو اہمیت دے رہی ہیں وہاں ان کو خانیوال کے ان علاقوں بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، یہاں کے باسیوں کی مکمل بحالی حکومت کا فرض ہے۔