اسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ غزہ شہر کے فلسطینی شہریوں کو جنوب کی طرف منتقل ہونا چاہیے، کیونکہ فوج غزہ کے سب سے بڑے شہری علاقے میں مزید اندر تک داخل ہو رہی ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے حکم پر کئی ہفتوں سے غزہ شہر کے مضافات پر حملے جاری ہیں۔
نیتن یاہو کا مؤقف ہے کہ غزہ شہر حماس کا مضبوط گڑھ ہے اور اسے قابو میں لانا جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہے۔
یہ کارروائی وہاں موجود لاکھوں فلسطینیوں کی مزید بے دخلی کا خطرہ پیدا کر رہی ہے۔ جنگ سے پہلے تقریباً ایک ملین افراد، یعنی غزہ کی آبادی کا نصف، اسی شہر میں رہتا تھا۔
اسرائیلی فوجی ترجمان اویخائے ادرعی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ شہری جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے ساحلی علاقے کی طرف منتقل ہو جائیں، جہاں انہیں خوراک، طبی امداد اور پناہ مل سکے گی۔ ادرعی نے کہا کہ یہ علاقہ ایک “انسانی ہمدردی کا زون” ہے۔

فوج کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کے تقریباً 75 فیصد علاقے پر قابض ہے اور غزہ شہر کا نصف کنٹرول بھی اس کے پاس ہے۔ تاہم کئی مقامی افراد نے دوبارہ بے گھر ہونے سے انکار کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے شہر پر بھاری بمباری کرتے ہوئے مضافاتی علاقوں میں پیش قدمی کی ہے اور اب وہ شہر کے مرکز سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
نیتن یاہو نے دائیں بازو کے اتحادیوں کی حمایت سے یہ فیصلہ فوجی قیادت کی ہچکچاہٹ کے باوجود کیا ہے، اور اس مقصد کے لیے ہزاروں ریزروسٹ فوجیوں کو طلب کیا گیا ہے۔
غزہ پر جاری جنگ کے باعث اسرائیل سفارتی طور پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے، حتیٰ کہ اس کے قریبی اتحادی بھی اس مہم کی مذمت کر رہے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے 1,200 افراد کو شہید کیا اور 251 یرغمالیوں کو غزہ لے گیا۔

اس کے بعد سے غزہ میں مقامی حکام کے مطابق 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں اور خطہ تباہی و انسانی بحران کا شکار ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق 48 یرغمالی اب بھی غزہ میں ہیں جن میں سے تقریباً 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جنگ کا اختتام ایک سفارتی معاہدے کے ذریعے کیا جائے۔
نیتن یاہو کا مؤقف ہے کہ کوئی بھی معاہدہ “سب یا کچھ نہیں” کی بنیاد پر ہونا چاہیے، یعنی تمام یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کا مکمل ہتھیار ڈالنا۔
دوسری جانب، حماس بعض یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے عارضی جنگ بندی پر تیار ہے، جیسا کہ جولائی میں زیرِ بحث آیا تھا مگر مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔