نیپال میں بدامنی کی لہر نے شدت اختیار کرلی جس کے نتیجے میں دارالحکومت کھٹمنڈو میں فوجی دستے سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ فوجی گشت پارلیمنٹ ہاؤس کو نذر آتش کرنے اور وزیرِاعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے والے مظاہروں کے بعد امن قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔
بکتر بند گاڑیاں اور فوجی دستے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے کرفیو کے احکامات دیتے رہے جبکہ جلائی گئی گاڑیوں اور عمارتوں کے ملبے کے بیچ سڑکیں سنسان دکھائی دیں۔
نیپالی فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگڈیل نے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ احتجاج ختم کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ مظاہروں کا آغاز پیر کو سوشل میڈیا پر پابندی اور بدعنوانی کے خلاف ہوا تھا جس میں نوجوانوں کی قیادت میں ‘جنریشن زی’ تحریک نے مرکزی کردار ادا کیا۔
تاہم یہ مظاہرے جلد ہی پورے ملک میں پھیل گئے اور حکومت مخالف غصے کی وجہ سے ملک میں بدامنی کی لہر دوڑ گئی۔
اب تک 19 افراد پولیس کی سخت کارروائی میں ہلاک ہوئے ہیں اور مشتعل افراد نے سرکاری دفاتر، سپریم کورٹ، وزیروں کے گھروں اور دیگر عمارتوں کو آگ لگا دی۔
فوج نے بدھ کے روز واضح کیا کہ توڑ پھوڑ، لوٹ مار، آتشزدگی اور افراد و املاک پر حملے ناقابلِ معافی جرائم ہوں گے۔ کھٹمنڈو کے ہوائی اڈے پر شام تک آپریشنز دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق پارلیمنٹ کی جلی ہوئی دیوار پر مظاہرین نے حکومت کو الوداع کہا اور ‘جن زی’ لکھا۔ منگل کے روز ہجوم نے سابق وزیرِاعظم کے پی شرما اولی کی رہائش گاہ کو بھی نذر آتش کیا۔ 73 سالہ کے پی شرما اولی نے بعد ازاں استعفیٰ دے دیا تاکہ سیاسی حل کی راہ ہموار ہو سکے تاہم ان کا موجودہ مقام ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔
واضع رہے کہ مظاہروں کا آغاز سوشل میڈیا پر پابندیوں اور بدعنوانی کے خلاف ہوا تھا لیکن حکومت کے خلاف غصہ اور ملک بھر میں بڑھتے احتجاجات نے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
نیپالی فوج نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں ایسے اقدامات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور ملک میں امن قائم رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
حکومت نے کرفیو کے نفاذ اور فوجی گشت کے ذریعے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات ملک میں سیاسی بحران کو حل کرنے میں کامیاب ہوں گے یا صورتحال مزید بگڑے گی۔