امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ اپنے پروگراموں میں امریکی ویزا رکھنے والے چینی شہریوں کو بھی شامل نہیں کرے گا۔
ناسا کی پریس سیکرٹری بیتھنی اسٹیونز نے وضاحت کی کہ یہ فیصلہ ادارے کے حساس تحقیقی کاموں اور ٹیکنالوجی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی شہریوں کی ناسا کی عمارات، تحقیقی مواد اور کمپیوٹر نیٹ ورک تک رسائی محدود کر دی گئی ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر رہنماؤں کے چین مخالف بیانات اور پالیسیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا اور چین کے درمیان جاری خلائی دوڑ میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق امریکا اور چین دونوں چاند پر خلاباز بھیجنے کے منصوبوں پر تیزی سے کام کر رہے ہیں اور دونوں ممالک اس شعبے میں برتری حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔

خلائی تجزیہ کاروں کے مطابق ناسا کا یہ فیصلہ چینی سائنسدانوں اور انجینئرز کے لیے امریکی خلائی پروگراموں کے دروازے مزید تنگ کر دے گا جس کے اثرات آئندہ برسوں تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
واضع رہے کہ اس فیصلے پر ابھی تک امریکی حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی چین نے اس پر رسمی طور پر کوئی بیان دیا ہے۔
تاہم ماہرین کے مطابق اس پالیسی سے دونوں ممالک کے درمیان خلائی تحقیق اور تعاون میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔