بلوچستان میں بدامنی اور بنیادی سہولیات کا فقدان کا رونا برسوں سے رویا جا رہا ہے، ایک طرف صوبے میں مسلح عسکریت پسند برسر پیکار ہیں تو دوسری طرف حقوق مانگنے والے جلسے جلوس کرتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ صوبائی حکومت ’سب اچھا ہے‘ کا دعویٰ کرتی ہے۔ کیا واقعی بلوچستان میں سب اچھا ہے؟
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں وزیرِاعلیٰ سرفراز بگٹی کی قیادت میں قدرتی وسائل کا تحفظ اور 955 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ جیسے منصوبوں سے صوبے میں ’تبدیلی‘ آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت تعلیم، صحت اور امن و امان پر بھی توجہ دے رہی ہے
ایک دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ بلوچستان جو قدرتی وسائل سے بھرپور ہونے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا ہے، وہ اب وزیرِ اعلٰی میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں ایک نیا دور دیکھ رہا ہے، مگر ناقدین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما، رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے صوبائی حکومت کو بے اختیار قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں‘ ۔
انہوں نے کہا ہے کہ ‘بلوچستان میں بدامنی کے ذمہ دار بلوچستان کی حفاظت کرنے والے سکیورٹی ادارے ہیں، جو صوبائی حکومت سے 85 ارب روپے تو لیتے ہیں، مگر ان کا جو کام ہے وہ نہیں کرتے‘۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ سیکیورٹی ادارے اپنا کام نہیں کررہے تو پھر وہ کیا کر رہے ہیں؟ جس کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’ کوئی ڈی ایچ اے بنا رہا ہے تو کوئی عسکری بینک، کوئی ٹماٹر کے ٹرک کے پیچھے لگا ہے تو کوئی اور بہت سے دوسرے کاموں میں مصروف ہے‘۔

بلوچستان میں اس وقت سیاسی صورتحال گھمبیر ہے، بے یقینی ہے۔ یہاں کے عوام برسوں سے حکومتی غفلت، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی کا شکارہیں۔
بلوچستان کے حالات پر نظر رکھنے والے مقامی صحافی ببرک کارمل جمالی نے کہا کہ’ بلوچستان تاریخی طور پر بالکل پسماندہ نہیں رہا ہے بلکہ بلوچستان کو پسماندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیراعلٰی سرفراز بگٹی اور اس کی ٹیم وہ کام نہیں کر سکے گی جس کی امید ہم لوگ لگائے بیٹھے ہوئے ہیں‘۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں دہائیوں سے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس بنا پر بلوچستان میں کئی تحریکوں نے جنم لیا، اس مسئلے نے بلوچوں کے ذہن میں ریاست کے خلاف بغاوت کو شدید ہوا دی ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ’ حکومت کو صرف کرپشن کی اجازت ہے، زمینوں پر قبضے کرنے کی آزادی ہے، حکومت عوام کو ریلیف دے سکی ہے اور نہ اپنے دعوے پوری کرسکی ہے‘۔
بلوچستان کے مالی حالات پر جہاں وزیر خزانہ میر شعیب احمد نوشیروانی نے 2024-25 کے بجٹ کا اعلان کیا۔ 955 ارب روپے کا یہ بجٹ جو ایک سنجیدہ اقتصادی ترقی کا عکاس ہے، جس میں شہریوں کو تعلیم، صحت، امن و امان، اور لوکل گورنمنٹ جیسے اہم شعبوں میں اضافی فنڈز مختص کیے گئے۔
قومی اسمبلی کے سب سے کم عمر رکن، نواب زادہ جمال خان رئیسانی جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے انہوں نے بلوچستان کے نوجوانوں کی حالت زار پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔
ان کے مطابق بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم کی کمی، روزگار کی عدم دستیابی، اور سماجی ناانصافی کا سامنا ہے۔اور اگر حکومت نے نوجوانوں کے مسائل پر فوری توجہ نہ دی تو یہ نوجوان یا تو انتہائی محب وطن بن جائیں گے یا پھر باغی ہو کر پہاڑوں کی طرف رخ کریں گے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبے میں مزید 542 اسکول بند ہو چکے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جو وزیرِ اعلیٰ بگٹی کی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔
اگرچہ حکومت نے بند اسکولوں کو فعال کرنے کے لیے 16 ہزار اساتذہ کی ضرورت ظاہر کی ہے مگر اس بحران سے نمٹنے کے لیے مزید فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
ببرک کارمل جمالی نے کہا کہ’ برسوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے رہنے والوں کا حق ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا، بلوچستان میں بہت قابل اور محنتی نوجوان ہیں مگر ان کی تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا ‘۔
بلوچستان کی حکومت نے کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کیا ہے۔ ان میں تعلیم، صحت، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر بنیادی سہولتوں کے منصوبے بھی شامل ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بے پناہ ذخائرموجود ہیں۔ جس میں ریکوڈک کاپر گولڈ مائن، کرومائیٹ، سنگ مرمر اور قدرتی گیس شامل ہیں جن میں عالمی سرمایہ داروں کے لیے سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔
وفاقی حکومت ،ریاستی اداروں اور صوبائی حکومت نے چین کے اشتراک سے کئی منصوبے تو شروع کررکھے ہیں، فنڈز کا استعمال بھی ہورہا ہے، صوبے کے ساحلی علاقے گوادر کو’ پاکستان کا دبئی‘ بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ یہ ممکن بھی ہے مگر ترقی تب نظر آئے گی جب مقامی افراد کا معیار زندگی بہتر ہوگا ۔