امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےالیکشن جیتنے اورپیرس معاہدے سے دستبرداری کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک ،جو کاربن کا بہت زیادہ اخراج کرتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلی کو قابو کرنے والے اہداف کو پورا کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس طرح وہ اقوامِ متحدہ کی دی گئی ڈیڈ لائن کو چھوڑ رہے ہیں۔
پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے تقریباً 200 ممالک کو اقوام متحدہ کو نئے قومی آب و ہوا کے منصوبے پیش کرنے کے لیے پیر کی آخری تاریخ تک کا وقت دیا گیا تھا، جس میں یہ طے کیا جانا تھا کہ وہ 2035 تک کاربن فٹ پرنٹ کے اخراج کو کیسے کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پیر کی صبح تک، چین، انڈیا اور یورپی یونین سمیت دنیا کے بہت سے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک نے ایسا نہیں کیا تھا۔
سائنس اور پالیسی انسٹی ٹیوٹ کلائمیٹ اینالیٹکس کے سی ای او بل ہیئر نے کہا کہ “عوام اس حقیقت پر اپنی حکومتوں سے سخت ردعمل کی توقع کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ اب پورے ایک سال میں 1.5 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گئی ہے، لیکن ہم نے عملی طور پر کچھ بھی نہیں دیکھا”۔

بڑے ممالک جنہوں نے آب و ہوا کے نئے منصوبوں کا اعلان کیا ہے ان میں امریکہ، برطانیہ، برازیل، جاپان اور کینیڈا شامل ہیں حالانکہ ٹرمپ سے امریکہ کی بائیڈن دور کی شراکت کو ختم کرنے کی توقع ہے۔
ٹرمپ نے گزشتہ ماہ امریکہ کو پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کا حکم دیا تھا اور کچھ توانائی کے اخراجات کو روک دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہ سائمن اسٹیل نے گزشتہ ہفتے کہا کہ “زیادہ تر ممالک نے کہا ہے کہ وہ اس سال بھی اپنے منصوبے تیار کریں گے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “لہذا یہ یقینی بنانے کے لیے کہ یہ منصوبے پہلے اعلی معیار کے ہیں، تھوڑا سا مزید وقت لگانا معنی خیز ہے”۔”
لیکن ختم ہونے والی ڈیڈ لائن ان خدشات میں اضافہ کرتی ہے، کچھ اہلکار اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ موسمیاتی پالیسی پر امریکی یو ٹرن دیگر ممالک کی کوششوں میں خلل ڈال رہا ہے”۔”
ایک سرکاری اہلکار نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ انڈیا نے ابھی تک اپنے آب و ہوا کے منصوبے کو ڈیزائن کرنے کے لیے درکار مطالعات مکمل نہیں کی ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے پیر کو کہا کہ چین اپنا موسمیاتی منصوبہ مقررہ وقت پر بتائے گا۔