امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر غزہ کے حوالے سے اپنے متنازعہ منصوبے کا اعادہ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ “غزہ ایک بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ ہے اور ہم اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے۔”
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب وہ سپر باؤل کے لئے نیو اورلینز جا رہے تھے اور اس دوران انہوں نے غزہ میں فلسطینی عوام کے لیے ‘رہائشی علاقے’ بنانے کا بھی ذکر کیا۔
ٹرمپ کے اس بیان نے عالمی سطح پر نئی تشویش پیدا کر دی ہے کیونکہ اس میں غزہ کے مستقبل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں فلسطینیوں کو یہاں سے منتقل کرنے کی بات کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ “امریکا اسے اپنے قبضے میں لے گا اور وہاں کوئی نہیں ہو گا، حماس بھی نہیں ہو گا۔”
ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکا اس خطے میں تعمیراتی کام کرے گا اور دیگر دولت مند مشرق وسطی کے ممالک کے ساتھ مل کر ‘خوبصورت رہائشی علاقے’ بنائے گا تاکہ فلسطینیوں کے لیے رہائش فراہم کی جا سکے۔
تاہم ان رہائشی منصوبوں کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائی گئیں اور نہ ہی ان کی جگہ کا تعین کیا گیا۔

ضرور پڑھیں: امریکا کی پیرس معاہدے سے دستبرداری باقی ممالک پر کیسا اثر چھوڑے گی؟
ٹرمپ کا یہ بیان پہلی بار نہیں آیا بلکہ اس سے قبل بھی انہوں نے غزہ کی پٹی کے حوالے سے اس طرح کے بیانات دیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جب وہ وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے تھے تو انہوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ امریکا غزہ کو اپنے زیر قبضہ لے گا اور اس کے ساتھ فلسطینیوں کی منتقلی کا عمل شروع کر دے گا۔
ماہرین نے اس عمل کو ‘نسلی صفائی’ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس میں لاکھوں فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی بات کی گئی ہے جو کہ عالمی قوانین کے تحت ایک جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد ان کی انتظامیہ کے عہدیداروں نے اس پر وضاحت پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا مقصد امریکا کو غزہ میں فوجی طور پر مداخلت کرنے کا نہیں تھا بلکہ صرف اس علاقے کی تعمیر نو کرنا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے کے ‘دا نیو یارک ٹائم’ کے مطابق فلسطینیوں کی منتقلی عارضی ہوگی اور امریکا اس عمل کو باہمی مشاورت کے تحت انجام دے گا۔
تاہم ٹرمپ کے اس بیان سے متعلق مزید سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی عالمی رہنماؤں اور ماہرین نے ان کے منصوبے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے اقدامات فلسطینی عوام کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو سکتے ہیں۔
اس سب کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کے غزہ کے حوالے سے پیش کردہ منصوبے کی بھرپور حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے جو نیا وژن پیش کیا ہے وہ اسرائیل کے لیے انتہائی مفید ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ “یہ ایک انقلابی اور تخلیقی وژن ہے جو اسرائیل کے لیے بہت بہتر ثابت ہو گا۔”
اگرچہ ٹرمپ نے اپنے منصوبے میں کہا تھا کہ امریکا غزہ میں دوبارہ تعمیر کرے گا اور اسے مشرق وسطی کا ‘ریویرا’ بنائے گا تاہم اس پر عمل درآمد کی حقیقت بہت پیچیدہ اور ممکنہ طور پر عالمی سطح پر بڑے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
دوسری جانب مصر اور اردن جیسے ممالک نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے اور ان کے حکام نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں بسانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے نمائندے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس عمل کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی سمجھتی ہیں اور اس پر فوری طور پر روک لگانے کی بات کر رہی ہیں۔
غزہ کی پٹی پر ٹرمپ کا منصوبہ صرف ایک سیاسی گفتگو نہیں ہے بلکہ اس سے فلسطینیوں کی زندگی اور مستقبل کا ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے۔
یہ تجویز غزہ کے مستقبل کی نوعیت اور اس میں رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔
کیا یہ منصوبہ واقعی ایک نیا دور شروع کرے گا یا پھر یہ فلسطینیوں کے لیے ایک اور بڑی مشکلات کا باعث بنے گا؟
اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا مگر اس وقت غزہ کی پٹی میں سیاسی کشیدگی اور عالمی سطح پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔