Follw Us on:

“مجھے اس جرم کی سزا دی جارہی ہے جو میری جیل سے سات ہزار میل دور ہوا” مقبول بٹ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
سنہ 1971 میں سرینگر سے جموں جانے والی پرواز کو ہائی جیک کر کے لاہور ائیرپورٹ پر اتار لیا گیا۔ (فوٹو: فیسبک)

تہاڑ جیل میں قید آزادی پسند کشمیری رہنما ’مقبول بٹ‘ کو انڈین حکومت نے برطانیہ میں اپنے سفارت کار کے قتل کے بعد، 11 فروری 1984 کو پھانسی دے دی تھی۔

سنہ 1984 میں برطانیہ میں بھارت کے سفارت کار رویندر مہاترے کو اغوا کرنے والوں کو شاید اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کا یہ عمل مقبول کی پھانسی پر منتج ہوگا۔

لیکن اس واقعے سے بھی بہت پہلے 1966 میں ایک سی آئی ڈی انسپکٹر امر چند کے قتل کے جرم میں مقبول بٹ کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

جب انھیں سزا سنائی گئی تو کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بھری عدالت میں میجسٹریٹ سے کہا: ‘جج صاحب، وہ رسی ابھی نہیں بنی جو مقبول کو پھانسی دے سکے۔’

اس فیصلے کے صرف چار ماہ بعد ہی، مقبول بٹ جیل سے38 فٹ لمبی سرنگ کھود کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ 

بھارتی حکومت اور اداروں نے انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن وہ دو ہفتوں تک مسلسل پیدل چل کر آزاد کشمیر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس کے بعد اگلے تقریباً آٹھ سال وہ آزاد کشمیر میں رہائش پزیر رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ان کی واپسی کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے ان پر بارہمولہ کے ہندواڑہ میں ایک بینک لوٹنے اور بینک مینیجر کو قتل کرنے کا

الزام لگایا گیا۔

تہاڑ جیل کے سابق جیلر کے مطابق مقبول کو ان کی پھانسی سے چند گھنٹے قبل ہی آگاہ کیا گیا. (فوٹو: فیسبک)

بھارتی ہوائی جہاز ’گنگا‘ ہائی جیکنگ کیس

سنہ 1971 میں سرینگر سے جموں جانے والی پرواز کو ہائی جیک کر کے لاہور ائیرپورٹ پر اتار لیا گیا۔

بھارتی فوکر F27 پرواز جو گنگا کے نام سے مشہور تھی کو اغوا کرنے والے دونوں ہائی جیکروں کا تعلق کشمیرسے تھا۔ 

اگرچہ مقبول بٹ براہ راست ہائی جیکنگ میں ملوث نہیں تھے لیکن بھارتی حکومت کی جانب سے ان کو اس تمام منصوبے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔

طیارہ ہائی جیک کرنے والے ہاشم قریشی نے بھی بعد میں رابطہ کرنے پر میڈیا کو بتایا کہ ’ہم ڈاکٹر فاروق حیدر کے کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ اچانک خبر آئی کہ اریٹیریا کے دو شدت پسندوں نے کراچی میں ایتھوپیا کے ایک جہاز پر فائرنگ کی اور اسے نقصان پہنچایا۔ مقبول بٹ نے جوں یہ سنا وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے اور کہا ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے‘۔

کچھ دنوں بعد بٹ صاحب نے کہا کہ اگر ہم آپ کو جہاز اغوا کرنے کی تربیت دیں تو کیا آپ اسے انجام دے پائيں گے؟ میں نے ان سے کہا کہ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔’

بعد ازاں مقبول بٹ نے خصوصی عدالت میں اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ہم نے کوئی سازش نہیں کی۔ ہم اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم نے ایسا کیا تاکہ کشمیر کی طرف دنیا کی توجہ مرکوز ہو۔

جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کی تشکیل

مقبول بٹ نے ایک اور آزادی پسند کشمیری راہنما ’امان اللہ‘ کے ساتھ مل کر 1976 میں جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی۔

اس تنظیم نے آگے چل کر نہ صرف مقبول بٹ کی زندگی بلکہ تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔ 

بھارت نے 2019 میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی تھی جبکہ یاسین ملک سمیت جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کے اہم راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

’نام‘ سربراہی اجلاس اور رہائی کو کوشش

سنہ 1981 میں انڈیا میں ’نام‘ سربراہی اجلاس کے دوران میڈیا کو فون پر ایک نامعلوم شخص نے بتایا کہ ’اس نے وگیان بھون اور اشوکا ہوٹل میں بم لگایا ہے اور اگر مقبول بٹ کو فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا تو وہ عمارتیں اڑا دی جائیں گی‘۔

اس سے ایک دن پہلے کانفرنس میں شریک سفارتکاروں کو بھی کیوبا کے سفارت خانے کے لفافوں میں اسی طرح کی دھمکیاں بھیجی گئیں۔

مقبول بٹ جیل سے38 فٹ لمبی سرنگ کھود کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ (فوٹو: فیسبک)

اس کے نتیجے میں تہاڑ جیل میں مقبول بٹ کی سکیورٹی بڑھا دی گئی اور ان کی نگرانی کے نظام کو مزید سخت کردیا گیا۔

رویندر مہاترے کا قتل اور مقبول کی پھانسی

سنہ 1984 میں برطانیہ میں بھارتی سفیرکو جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف) کی جانب سے اغوا کیا گیا اور ان کی رہائی کے بدلے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

تاہم جب ایسا ممکن نہ ہوسکا تو تنظیم کی جانب سے بھارتی سفارت کار کا قتل کر دیا گیا۔ جس کے بعد بھارتی حکومت نے راتوں رات مقبول کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیا۔

تہاڑ جیل کے سابق جیلر کے مطابق مقبول کو ان کی پھانسی سے چند گھنٹے قبل ہی آگاہ کیا گیا تاہم ان کو حالات کا اندازہ تھا اور وہ تمام عمل کے دوران پرسکون رہے۔ 

وہ گیارہ فروری کی صبح چار بجے اٹھ گئے، آخری بار نماز ادا کی، چائے پی اور پھانسی کے پھندے کی طرف چل پڑے۔ 

انہوں نے اپنی وصیت لکھوانے کی بجائے ریکارڈ کروائی تاہم بھارتی حکومت نے اس پیغام کو سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر آگے پہنچانے سے انکار کر دیا۔

ہاشم قریشی کے مطابق ’مقبول بٹ نے کہا کہ مجھے اس جرم کی سزا دی جارہی ہے جو میری جیل سے 7000 میل دور واقع ہوا اور جس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے‘۔ 

میت کی واپسی کی جدوجہد

بھارتی حکومت نے پھانسی کے بعد مقبول بٹ کی میت کو واپس کرنے سے انکار کر دیا اور مقبول کی میت کو تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کر دیا گیا تھا۔ 

حال ہی میں یورپی یونین کشمیر کونسل کے چئیرمین علی رضا سید کی جانب سے مقبول بٹ اور افضل گورو کے اجساد خاکی حاصل کرنے کے لیے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا اعلان سامنے آیا تھا۔ 

یاد رہے کہ ایک اور کشمیری افضل گورو کو بھی بھارتی حکومت کی جانب سے 9 فروری 2013 کو سزائے موت دے کر ان کے اجساد خاکی کو ان کے اہلخانہ کی مرضی کے برخلاف بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں ہی دفن کردیا گیا تھا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس