5 اکتوبر کو لاہور میں ہونے والے پی ٹی آئی کے احتجاج اور پولیس پر تشدد کے حوالے سے عدالت میں اہم سماعت ہوئی، جس میں پی ٹی آئی رہنماؤں علیمہ خان اور عظمی خان سمیت دیگر ملزمان کی عبوری ضمانتوں پر فیصلہ کیا گیا۔
اس سماعت نے سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنا دیا اور عدالت کی کارروائی کی طرف عوامی توجہ مرکوز ہو گئی۔
سماعت کے دوران علیمہ خان اور عظمی خان عدالت میں پیش نہیں ہو سکیں، جس پر ان کے وکلاء نے ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست دائر کی۔
وکلاء کا موقف تھا کہ دونوں رہنماء اس وقت میانوالی میں موجود ہیں اور ان کی حاضری ممکن نہیں، اس پرعدالت نے درخواست کو منظور کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانتوں میں 12 اپریل تک توسیع کر دی۔
پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے مقدمات کے حوالے سے تفصیلات فراہم کیں۔
سلمان اکرم راجہ نے دیگر مقدمات کی بنیاد پر لمبی تاریخ دینے کی درخواست کی، جس پر عدالت نے ان کی استدعا بھی منظور کر لی۔ تاہم، پولیس نے سلمان اکرم راجہ سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو ایک مقدمے میں گناہگار قرار دیا اور ان کے خلاف تفتیشی کارروائی جاری رکھی۔
اس کے علاوہ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ دیگر مقدمات میں تفتیش ابھی مکمل نہیں ہو سکی۔
پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو پولیس پر تشدد کرنے پر اُکسایا جس کے بعد لاہور میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہروں میں تشویش ناک واقعات پیش آئے تھے۔
سماعت کے دوران علی امتیاز وڑائچ، ندیم عباس بارا، شبیر گجر، غلام محی الدین دیوان، افضال عظیم پاہٹ اور ضمیر احمد چھیڈو جیسے دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے بھی اپنی عبوری ضمانتوں کی درخواستیں دائر کیں جنہیں عدالت نے سماعت کے لیے منظور کر لیا۔
دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے تین اہم مقدمات پر سماعت کی اور تمام ملزمان کی عبوری ضمانتوں میں 12 اپریل تک توسیع کا حکم دیا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے لئے عدالت کا یہ فیصلہ ایک سنگین سیاسی محاذ پر تبدیلی کا نشان ہے جس کے اثرات مستقبل قریب میں سامنے آئیں گے۔
اس پیشرفت نے نہ صرف سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے احتجاج اور پولیس تشدد کے کیسز کی گہرائی میں بھی نئے سوالات اٹھا دیے ہیں، جو اگلے کچھ دنوں میں مزید منظر عام پر آئیں گے۔