کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہونے والے 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا، دوست ہی دوست کا قاتل نکلا، سی آئی اے پولیس کا لاش ملنے کا دعویٰ، نئے حقائق سامنے آگئے۔
سی آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقدس حیدر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’23 سالہ مصطفیٰ عامر کو تشدد کے بعد گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب منتقل کیا گیا جہاں انھیں گاڑی سمیت آگ لگا کر قتل کر دیا گیا۔’
مصطفیٰ کی گمشدگی کا مقدمہ ان کی والدہ وجیہہ عامر کی مدعیت میں کراچی کے درخشاں تھانے میں درج کیا گیا تھا۔مقدمے میں وجیہہ عامر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا چھ جنوری شام ساڑھے سات بجے اپنی کار لے کر گھر سے نکلا تھا جو واپس نہیں آیا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کی کال ایک امریکی نمبر والی سم سے موصول ہوئی جس کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں منتقل ہوا اور تحقیقات سی آئی اے کے پاس آئی۔
سی آئی اے پولیس نے آٹھ فروری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفیٰ عامر کے دوست اور واقعے کے ملزم ارمغان کے گھر پر شک کی بنیاد پر چھاپا مارا۔جس کے دوران پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی اوراس دوران ایک ڈی ایس پی سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے تھے تاہم پولیس نے ارمغان کو حراست میں لے لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ملزم ارمغان کے گھر کے بکھرے ہوئے سامان سے مصطفیٰ عامر کا موبائل ملا جو مقدمے کی تفتیش میں اہم کڑی ثابت ہوا۔ڈی آئی جی مقدس حیدرکے مطابق بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ موبائل شاید ان کے درمیان مبینہ ہاتھا پائی کے دوران گر گیا تھا۔
چھاپے کے دوران پولیس نے بنگلے سے جدید اسلحہ اور 64 کے قریب لیپ ٹاپ بھی برآمد کیے۔ ملزم ارمغان کال سینٹر چلاتے تھے اور مبینہ طور پر کرپٹو کرنسی کا کام بھی کرتے تھے۔
سی آئی اے نے ایک حساس ادارے کی مدد سے مقدمے کی تفتیش جاری رکھی اور ملزم ارمغان کے دوست اور اس واقعے میں شریک جرم شیراز عرف شاویز نامی شخص کو گرفتار کیا جنھوں نے دوران تفتیش سب سچ بتا دیا۔
مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ مصطفی چھ جنوری کی شب ارمغان کے گھر آئے جہاں دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور ملزم ارمغان نے طیش میں آ کر مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا۔
مقدس حیدر کے مطابق اس واقعے میں گرفتار ملزم شیراز کے بیان کی تصدیق ارمغان کے دو ملازمین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت پولیس حراست میں ہیں، مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر کا کہنا ہے کہ انھیں ابتدا سے ہی ملزم ارمغان پر شک تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک حاصل کردہ معلومات اور تفیتش کے مطابق مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کی وجہ یا محرکات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
دوستوں کی ملاقات کے دوران کچھ دیر باتیں ہوئیں پھر وہاں ان لوگوں کی آپس میں لڑائی ہو گئی اور انھوں نے مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا اور انھیں اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر حب کی طرف لے گئے جہاں انھوں نے گاڑی سمیت مصطفیٰ کو آگ لگا دی۔