Follw Us on:

چینی لڑاکا طیاروں کی تائیوان کی سرحد پر پروازیں، تنازع ہے کیا؟

مادھو لعل
مادھو لعل
China b
تائیوان کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے

چینی لڑاکا طیارے تائیوان کی سرحد کے قریب پروازیں کرتے پائے گئے، کینیڈین نیوی کے جہازوں کو روٹ تبدیل کرنے کی وارننگ جاری کر دی گئی جبکہ تائیوان کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

تائیوان وزارت دفاع کے مطابق تائیوان کے سرحدی علاقے کے پر چین کے 24 جنگی طیاروں نے پروازیں کیں جن کو ریڈار پر ٹریس کیا گیا۔

چینی جنگی طیاروں اور ڈرونز کی جانب سے تائیوان کی سرحد کے قریب نگرانی پروازیں کی گئی تھیں، جس کے دوران تائیوان کے قریب سے گزرنے والے کینیڈین بحری جہازوں کو اپنا راستہ تبدیل کرنے کا الرٹ جاری کیا گیا۔

تائیوان کی وزارت خارجہ کے مطابق اُس وقت کینیڈین صوبے اوٹاوا کا مال بردار بحری جہاز سمندر سے منزل کی طرف بڑھ رہا تھا جس کو راستہ تبدیل کرنے کی وارننگ دی گئی۔

واضح رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے تائیوان کے زیر ملکیت 180 کلومیٹر کی سمندری حدود میں متواتر مسافت کی جاتی ہے تاکہ عالمی سرحدی لائن کے تقدس کو برقرار رکھا جا سکے۔

تائیوان وزارت دفاع کے مطابق 48 گھنٹوں کے دوران تائیوان کی سرحد کے قریب مجموعی طور پر 62 چینی طیاروں نے پروازیں کیں۔

کینیڈین صوبے اوٹاوا کا مال بردار بحری جہاز سمندر سے منزل کی طرف بڑھ رہا تھا

واضح رہے کہ چین اور تائیوان 1949 سے الگ ہیں، ایسا تب ہوا تھا، جب چینی خانہ جنگی ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹوں کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔

اُس وقت شکست خوردہ قوم پرست، جن کی قیادت ماؤ کے حریف اور کومِن ٹانگ (کے ایم ٹی) پارٹی کے سربراہ چیانگ کائی شیک کر رہے تھے، تائیوان چلے گئے۔

تائیوان میں اس وقت سے ایک الگ اور آزادانہ حکومت قائم ہے۔ تائیوان کو سرکاری طور پر جمہوریہ چین کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے۔

آبنائے تائیوان اس جزیرے کو چین سے الگ کرتی ہے۔ تائیوان میں جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے اور اس کی آبادی تقریباً 23 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔

چین کے 24 جنگی طیاروں نے پروازیں کیں جن کو ریڈار پر ٹریس کیا گیا

سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے بیجنگ حکومت تائیوان کو ایک ”منحرف صوبے‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے چینی سرزمین کے ساتھ ”متحد‘‘ کرنے کا عہد کرتی ہے۔

بیجنگ کا موقف یہ ہے کہ صرف ”ایک چین‘‘ ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے۔ چین دنیا بھر کے ممالک پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ بیجنگ کا ساتھ دیں اور تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کریں۔

تائی پے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کا بھی رکن نہیں ہے حالانکہ اس کے پاس ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کی رکنیت ہے۔ چین دنیا بھر کی کمپنیوں پر بھی دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ تائیوان کو چین کا حصہ قرار دیں۔

مثال کے طور پر 2021ء میں چین نے یورپی یونین کے رکن لیتھوانیا کے ساتھ تجارت منقطع کر دی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اس یورپی ملک نے اپنے دارالحکومت میں تائیوان کو ایک نمائندہ دفتر کھولنے کی اجازت فراہم کی تھی۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس