افغانستان میں طالبان کی حکومت نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے جاپان کا دورہ کیا ہے جو ان کے لیے عالمی سطح پر پہلی بڑی سفارتی کوشش ہے۔
یہ دورہ طالبان کی جانب سے عالمی برادری سے ‘باوقار’ تعلقات کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ اس وفد میں طالبان کے وزارت خارجہ، وزارت تعلیم، وزارت صحت اور وزارت معیشت کے اہم افسران شامل ہیں۔
آج سے چند برس قبل طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد ان کے سفارتی روابط زیادہ تر اپنے پڑوسی ممالک اور قریبی خطے تک ہی محدود رہے تھے۔ تاہم، اس دورے نے عالمی سطح پر ان کی موجودگی کو مزید تسلیم کرنے کی کوششوں کو ظاہر کیا ہے۔
جاپان میں طالبان کا یہ دورہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی دوسرے ملک کا پہلا سفارتی دورہ ہے جو اس گروپ کے عالمی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ دورہ ایک ہفتے تک جاری رہے گا اور اس دوران طالبان نمائندے جاپانی حکام سے انسانی امداد کے معاملات پر بات چیت کریں گے اور ممکنہ طور پر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے امکانات پر غور کیا جائے گا۔
طالبان کے ایک اعلیٰ عہدے دار لطیف نظری، جنہوں نے اس وفد کی قیادت کی،انہوں نے اس دورے کو ‘افغانستان کو عالمی برادری کا ایک فعال رکن بنانے’ کے لیے ایک قدم قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم ایک مضبوط، متحد، ترقی یافتہ اور خوشحال افغانستان کے لیے عالمی سطح پر باوقار تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: ’اسرائیل 18 فروری تک لبنان سے نکل جائے ورنہ قبضہ سمجھیں گے‘ حزب اللہ کا انتباہ
طالبان کے جاپان دورے کی اہمیت اس بات سے بھی مزید بڑھ جاتی ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کابل میں ایک اور دہشت گرد حملہ ہوا ہے جس کی ذمہ داری داعش (ISIS) نے قبول کی ہے۔
اس حملے میں وزارت شہری ترقی و آبادکاری کے باہر خودکش دھماکہ ہوا جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
جاپان کی سفارت خانہ نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی کے حملے فوری طور پر بند ہونے چاہئیں۔‘‘
جاپان جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں اپنی سفارت کاری محدود رکھے ہوئے تھا نے حالیہ برسوں میں طالبان حکومت کے ساتھ کچھ سطح پر روابط استوار کیے ہیں خاص طور پر انسانی امداد کی فراہمی کے حوالے سے۔
تاہم طالبان کا جاپان کا یہ دورہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اب عالمی سطح پر مزید تسلیم حاصل کرنے اور اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے کوششیں تیز کر رہے ہیں۔
یہ دورہ طالبان کے لیے ایک نیا موڑ ہو سکتا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کے سامنے اپنے موقف کو مضبوط کرنے اور افغانستان کی معیشت اور ترقی کے لیے عالمی امداد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
لیکن یہ سوال بھی برقرار ہے کہ آیا جاپان اور دیگر ممالک طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
ان تمام پیچیدہ مسائل کے درمیان یہ دورہ ایک سنگ میل بن سکتا ہے جو مستقبل کے تعلقات کی راہیں متعین کرے گا۔
مزید پڑھیں: ’روس نیٹو پر جنگ مسلط کر دے گا‘ یوکرینی صدر نے امریکا کو خبردار کردیا