سندھ ہائیکورٹ نے مصطفٰی عامر قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کرتے ہوئے انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
جج جسٹس ظفر راجپوت نے مصطفیٰ قتل کیس کی سماعت کی اور محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
کیس کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل اور کیس کے سابق تفتیشی افسر سمیت متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ملزم ارمغان کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔
دوران سماعت عدالت نے سوال کیا کہ اب کیس کا تفتیشی افسر کون ہے؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ محمد علی اب کیس کے تفتیشی افسر ہیں جس پر عدالت نے انہیں طلب کر لیا۔
عدالت نے کیس کے سابق تفتیشی افسر امیر اشفاق سے سوال کیا میڈیکل کا لیٹر کہاں ہے؟ سابق تفتیشی افسر نے جواب دیا مجھے کوئی لیٹر نہیں ملا تھا، عدالت نے سوال کیا آپ نے کوئی لیٹر دیا تھا ایم ایل او کو، وہ کہاں ہے؟ یہ لیٹر کیوں دیا تھا آپ نے؟

سابق تفتیشی افسر نے جواب دیا ایڈمنسٹریٹر جج صاحب نے مجھے زبانی احکامات دیے تھے، اس موقع پر عدالت نے کہا جیل کسٹڈی کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم ہوگئی تھی۔
دوران سماعت رجسٹرار انسداد دہشتگردی عدالت نے کیس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا اور موجودہ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں پہلے پولیس ریمانڈ دیا گیا تھا اور شام 7 بجے جیل کسٹڈی کی ہے۔
اس پر جسٹس ظفر نے ریمارکس دیے کہ پولیس کسٹڈی ریمانڈ پر وائٹو لگا کر اسے جیل کسٹڈی کر دیا گیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو ریمانڈ کے لیے آج ہی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ ملزم کو اغوا، قتل، اور دیگر الزامات میں ریمانڈ کے لیے اے ٹی سی میں پیش کیا جائے۔

واضح رہے کہ جنوری میں لاپتہ ہونے والے 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر کی لاش بلوچستان سے ملی تھی جنھیں مبینہ طور پر اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے جمعے کے روز سی آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقدس حیدر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مصطفیٰ عامر کو ’تشدد کے بعد گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب منتقل کیا گیا، انھیں گاڑی سمیت آگ لگا کر قتل کیا گیا۔
ادھر فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ 12 جنوری کو بلوچستان کے علاقے دہریجی سے ایک لاش ملی تھی جو پولیس کے بقول مصطفیٰ عامر کی تھی۔
فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ سولہ جنوری کو اس لاش کی تدفین کر دی گئی کیونکہ اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے زیادہ دیر تک رکھا جاتا۔
لاش مکمل جل چکی تھی،’صرف دھڑ بچا تھا، باقی ہاتھ، پاؤں، بازو نہیں تھے، ان کا خیال ہے کہ لاش کی یہ حالت اس لیے ہوئی کیونکہ گاڑی کے پچھلے حصے میں فیول ٹینک اور پچھلے ٹائر دیر تک جلتے رہے ہوں گے۔
دوسری طرف مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج کے پاس قبر کشائی کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ منتظم جج نے درخواست گزار کو متعلقہ مجسٹریٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہوئے تھے اور پولیس نے ان کی تلاش میں ان کے ایک دوست اور واقعے میں ملوث ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔
مصطفیٰ کی گمشدگی کا مقدمہ ان کی والدہ وجیہہ عامر کی مدعیت میں کراچی کے درخشاں تھانے میں درج کیا گیا، اس مقدمے میں وجیہہ عامر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا چھ جنوری شام ساڑھے سات بجے اپنی کار لے کر گھر سے نکلا تھا جو واپس نہیں آیا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کی کال ایک امریکی نمبر والی سم سے موصول ہوئی جس کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں منتقل ہوا اور تحقیقات سی آئی اے کے پاس آئی۔
وجیہہ عامر کہتی ہیں کہ تاوان کے لیے امریکی نمبر والی سم سے آنے والی کال ان کے لیے نعمت ثابت ہوئی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہاں کے مجرم کب سے اتنے ہائی ٹیک ہوگئے کہ غیر ملکی سم سے کالز کریں۔ اس کال کے بعد یہ کیس اینٹی وائلینٹ کرائم سیل کے پاس منتقل ہو گیا۔