چین کے جنگی جہازوں کی آسٹریلوی سمندری حدود کے قریب غیر معمولی موجودگی نے خطے میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔
آسٹریلیا کے نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع رچرڈ مارلز نے اسکائی نیوز آسٹریلیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ ان کے ملک کے دفاعی ادارے چینی جنگی جہازوں کی نگرانی کر رہے ہیں جو ان کے ساحلی پانیوں کے قریب بحر جنوبی چین میں حرکت کر رہے ہیں۔
مارلز نے کہا کہ “یہ صورتحال غیر معمولی ہے لیکن ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے” اور یہ کہ چین کے جنگی جہازوں کو بین الاقوامی پانیوں میں موجود رہنے کا مکمل حق ہے تاہم آسٹریلیا کا حق ہے کہ وہ ان جہازوں کی نگرانی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہم اس صورتحال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں تاکہ ہماری سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔”
آسٹریلیا کی وزارت دفاع نے 13 فروری 2025 کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ چینی جنگی جہازوں کا ایک قافلہ، جس میں پیپلز لبریشن آرمی نیوی (PLA-N) کا جیانگکائی کلاس فریگیٹ “ہینگ یانگ”، رین ہائی کروز “زونی” اور فُوچی کلاس کی سپلائی شپ “وی شان ہو” شامل ہیں، جو شمال مشرقی آسٹریلیا کی سمندری حدود میں داخل ہوا۔
ان جہازوں کی نقل و حرکت اس بات کا غماز ہے کہ چینی فوج کے سفری مفادات اس علاقے میں بڑھتے جا رہے ہیں۔
چین کے جنگی جہازوں کی یہ نقل و حرکت آسٹریلوی بحریہ کے لیے چیلنج بن گئی ہے اور اس کی نگرانی 150 نیٹیکل میل تک کی جا رہی ہے۔
ان جہازوں کی موجودگی آسٹریلوی حکومت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کیوں کہ چین کی فوجی طاقت بڑھتی جارہی ہے۔
دوسری جانب نیوزی لینڈ کی فوج نے بھی اس آپریشن کی نگرانی کا اعلان کیا ہے اور دونوں ممالک مل کر چین کے جنگی جہازوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کا یوکرین کی حمایت میں اقوام متحدہ کی قرارداد کا شریک سپانسر بننے سے انکار
اسی دوران 11 فروری 2025 کو چین کے ایک جنگی طیارے کی جانب سے ایک اور واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک چینی جی-16 طیارہ نے آسٹریلیا کے رائل ایئر فورس کے پی-8 اے پوزیڈن طیارے کے قریب خطرناک انداز میں فلائرز چھوڑے۔
آسٹریلیا کی وزارت دفاع نے اس واقعے کو “غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں طیاروں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا تاہم خوش قسمتی سے اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس غیر معمولی واقعے نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ بحر جنوبی چین میں چین کی عسکری سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں، اور اس کا اثر خطے میں موجود دیگر ممالک کی دفاعی حکمت عملیوں پر بھی پڑ رہا ہے۔
آسٹریلیا اور نیو زیلینڈ کی طرف سے اس معاملے پر تیز رفتار نگرانی اور جوابی اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ چین کی فوجی قوت کی پھیلاؤ کے ساتھ خطے کی سلامتی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
یہ کشیدگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر دفاعی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
اس وقت اس بات کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات خطے کے لیے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فوج کا حملہ: تین فلسطینی شہید، درجنوں گرفتار