Follw Us on:

ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین اور ‘زیلنسکی’ کے بارے میں جھوٹے دعوے: حقیقت سامنے آگئی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Ukrain president
ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین اور 'زیلنسکی' کے بارے میں جھوٹے دعوے: حقیقت سامنے آگئی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان الفاظ کی جنگ شدت اختیار کرگئی ہے۔ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں یوکرینی صدر کے بارے میں کئی دعوے کیے ہیں جنہیں حقیقت سے پرے اور جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔

ان دعووں کے ساتھ ہی ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے جس میں ٹرمپ نے زیلنسکی کو “آمر” قرار دیا اور یہ کہا کہ وہ ہی یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے ذمہ دار ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے ایک نہایت متنازعہ بیان دیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ “زیلنسکی نے جنگ شروع کی۔”

انہوں نے کہا “یوکرین کو تین سال ہوگئے ہیں جنگ لڑتے ہوئے لیکن اگر وہ چاہتا تو یہ جنگ پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی۔” اس دعوے کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ سراسر جھوٹ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ 24 فروری 2022 کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور یہ جنگ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے شروع کی گئی تھی۔

پوتن نے اپنے خطاب میں اسے “خصوصی فوجی آپریشن” قرار دیا اور کہا تھا کہ اس کا مقصد یوکرین کے عوام کو بچانا ہے لیکن یہ تمام باتیں جھوٹ تھیں اور انہیں عالمی سطح پر جھوٹا قرار دیا گیا۔

ٹرمپ نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ زیلنسکی ایک آمر ہے اور اس نے یوکرین میں انتخابات نہیں کرائے۔ یہ دعویٰ بھی سراسر غلط ہے۔ زیلنسکی 2019 میں جمہوری طریقے سے صدر منتخب ہوئے تھے اور انہیں 73 فیصد عوامی ووٹ ملے تھے۔

جب جنگ کا آغاز ہوا تو یوکرین نے مارشل لا نافذ کر لیا تھا جس کی وجہ سے انتخابات ممکن نہیں تھے۔ یہ وہی صورتحال ہے جو دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ میں تھی جہاں انتخابات کو ملتوی کیا گیا تھا۔

یہاں تک کہ ‘فیتھالی مغادام’ جو جمہوریت اور آمرانہ حکمرانی پر تحقیق کرتے ہیں انہوں نے اس بات کو ‘غلط’ قرار دیا کہ زیلنسکی کو آمر کہا جائے۔

ٹرمپ نے یوکرین میں زیلنسکی کی حمایت کو محض 4 فیصد تک محدود قرار دیا۔ اس دعوے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: “لاشوں میں سے ایک کا تعلق غزہ میں یرغمالیوں سے نہیں ہے” اسرائیلی فوج

ایک حالیہ سروے کے مطابق زیلنسکی کی حمایت 57 فیصد تک تھی۔ اگرچہ یہ حمایت مئی 2022 میں 90 فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے باوجود اس میں کمی دیکھنے کو ملی ہے جو کہ جنگ کی طوالت اور مشکلات کی وجہ سے ہے۔ یہ دعویٰ بھی مکمل طور پر جھوٹا ثابت ہوا ہے اور اس کے پیچھے کوئی مستند ڈیٹا نہیں ہے۔

ٹرمپ نے ایک اور متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے یوکرین کو 350 ارب ڈالر امداد فراہم کی ہے۔ جبکہ حقیقت میں امریکا نے اس جنگ میں اب تک تقریبا 183 ارب ڈالر کی امداد یوکرین کو دی ہے۔

یہ رقم اس کے علاوہ ہے جو امریکا نے اپنے فوجی اور دیگر ضروری وسائل کے لئے خرچ کی۔ اس طرح ٹرمپ کا دعویٰ حقیقت سے میل نہیں کھاتا اور عالمی سطح پر غلط ثابت ہوا ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے بیان دیا گیا ہے کہ زیلنسکی نے کہا تھا کہ امریکا کی مدد کا نصف حصہ غائب ہے۔ یہ بیان بھی درست نہیں ہے۔ زیلنسکی نے کہا تھا کہ امریکا کی جانب سے دی گئی امداد کا ایک حصہ فوجی ضروریات کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے خرچ کیا گیا ہے اور اس نے کہا تھا کہ اس امداد کا کچھ حصہ امریکا کے اپنے اسلحہ ساز اداروں اور فوجی آپریشنز پر خرچ کیا گیا ہے۔

لازمی پڑھیں: اسرائیل: تین بسوں میں تین دھماکے، بارودی مواد برآمد

آخرکار ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا کہ یوکرینی صدر زیلنسکی امریکی خزانہ کے وزیر اسکاٹ بیسنٹ سے ملنے کے لیے دستیاب نہیں تھے اور ‘سو رہے تھے’۔ لیکن اس دعوے کی بھی حقیقت کچھ اور تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ بیسنٹ اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی دستیاب ہیں جو اس بات کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔ اس ملاقات کی تفصیلات یوکرینی صدر کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں جو اس دعوے کو مکمل طور پر غلط ثابت کرتی ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دعوے حقیقت سے پرے ہیں اور انہیں عوامی سطح پر جھوٹا ثابت کیا گیا ہے۔ ان کے بیانات کا مقصد نہ صرف یوکرینی صدر کی کردار کشی کرنا ہے بلکہ ان کے موقف کو بھی عوامی سطح پر کمزور کرنا ہے۔

زیلنسکی کو آمر کہنا جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کرنا، اور امریکی امداد کے حوالے سے جھوٹ بولنا ان دعووں میں شامل ہیں جو عالمی سطح پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔

ایسی صورت میں جب عالمی برادری یوکرین کے ساتھ کھڑی ہے اور جنگ کے خاتمے کے لئے مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے ایسے جھوٹے دعوے محض حالات کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹ کا ایف بی آئی ڈائریکٹر کے لیے کیش پٹیل کو گرین سگنل

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس