قیدیوں کے تبادلے پر جشن و گرفتاریاں: حماس، اسرائیل میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ

Ghaza 110

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دونوں طرف سے قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے، جمعرات کے روز  110 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ان میں سے 32 قیدی وہ تھے جو زندگی بھر کی سزاؤں کی مدت گزار رہے تھے۔ ان قیدیوں کی رہائی کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تاہم اسرائیلی پولیس نے جشن کی تقریبات کے دوران  12 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔ غزہ میں جہاں جنگ کی تباہ کاریاں جاری ہیں، اسرائیلی افواج نے 47,460 فلسطینیوں کی جان لے لی ہے اور 111,580 کو زخمی کیا ہے۔ یہ سب کچھ 7 اکتوبر 2023 کے دن کے بعد سے شروع ہوا جب حماس کی قیادت میں اسرائیل پر حملے ہوئے تھے۔ اس دن اسرائیل میں 1,139 افراد مارے گئے تھے اور 200 سے زیادہ اسرائیلیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک شخص جو 24 سال سے اسرائیل کی حراست میں تھا اس شخص نے ’الجزیرہ‘ کے ایک نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی اذیتوں کا ذکر کیا اور کہا کہ “یہ لمحے زندگی بھر یاد رہیں گے لیکن ہم نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں۔” غزہ میں اسرائیلی افواج نے نہ صرف فلسطینیوں کو جسمانی طور پر نقصان پہنچایا، بلکہ اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ فلسطینی گھروں پر کیے گئے ‘گرافیٹی’ نے صورتحال کو اور زیادہ دردناک بنا دیا۔ “بریکنگ دی سائلنس” نامی تنظیم جو اسرائیلی فوج کے سابق فوجیوں پر مشتمل ہے اس تنظیم نے ان فوجیوں کے بیانات کا انکشاف کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی گھروں کے اندر گرافیٹی کرنے کا عمل معمول بن چکا تھا جس میں جنسی تصاویر اور نفرت انگیز پیغامات لکھے جاتے تھے۔ ایک اسرائیلی فوجی نے کہا کہ “یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا تھا۔ ہم جانتے تھے کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں واپس آنا ہوگا لیکن ہمیں ان کے گھروں کو تباہ کرنے کا حکم تھا۔” دوسری طرف مغربی کنارے میں جینین اور طولکرم کے علاقوں میں اسرائیلی افواج کی جارحیت نے ایک اور خونریزی کا منظر پیش کیا۔ جینین کے پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج نے تین خواتین کو زخمی کیا جبکہ جینین شہر میں فلسطینی جنگجوؤں نے اسرائیلی افواج کو دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے کئی عمارتوں کو تباہ کر دیا اور درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت 110 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی، جن میں 32 قیدی زندگی بھر کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔یہ ایک اہم قدم تھا، لیکن اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جاری کارروائیاں اور مسلسل کشیدگی نے اس کی کامیابی کو مشکوک بنا دیا۔ دریں اثناء اسرائیل کے لیے ایک اور عالمی تشویش کا معاملہ سامنے آیا جب نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں اسرائیلی فوجیوں سے ان کے فوجی خدمات کے بارے میں سوالات کیے جانے لگے۔ نیوزی لینڈ نے اسرائیلی فوجیوں سے ان کی سروس کے بارے میں تفصیلات طلب کیں اور بعض فوجیوں کو ان کے جوابات کی بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ یہ ساری صورتحال بتاتی ہے کہ نہ صرف غزہ اور مغربی کنارے میں خونریزی جاری ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس جنگ کے اثرات اور اس سے وابستہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شدید بحث کا باعث بن رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری اس سنگین بحران پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتی ہے اور کیا اس خونریزی کو روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے گا؟

‘ٹک ٹاک ویڈیوز پر اعتراض تھا’ امریکا سے پاکستان آئی بیٹی باپ کے ہاتھوں قتل

Honor killing

حال ہی میں اپنے خاندان کو امریکا سے واپس پاکستان منتقل کرنے والے ایک شخص نے اپنی نوعمر بیٹی کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے کیوں کہ بیٹی کی ٹک ٹاک ویڈیوزاسے پسند نہیں تھیں۔ انوار الحق پر قتل کا الزام اس وقت لگایا گیا جب اس نے منگل کو کوئٹہ میں اپنی بیٹی حرا کو گولی مارنے کا اعتراف کیا۔ اس نے ابتدائی طور پر تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ فائرنگ کے پیچھے نامعلوم افراد کا ہاتھ تھا۔ امریکی شہریت رکھنے والے والد نے کہا کہ اسے اپنی بیٹی کی پوسٹس اچھی نہیں لگتی تھیں۔ پولیس کے مطابق  وہ اس کیس کو تمام زاویوں سے دیکھ رہے ہیں جس میں  غیرت کے نام پر قتل  کرنا شامل ہے جو ملک میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمات کے مطابق، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں افراد جن میں سے زیادہ تر خواتین  ہیں، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل میں مارے جاتے ہیں۔ یہ قتل عام طور پر رشتہ داروں کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی عزت کے دفاع میں کام کر رہے ہیں۔ حرا انور کے معاملے میں، جس کی عمر 13 سے 14 سال کے درمیان تھی، پولیس کے ترجمان نے کہا کہ اس کے خاندان کو “اس کے لباس، طرز زندگی اور سماجی روابط پر اعتراض تھا”۔ یہ خاندان 25 سال تک امریکا میں مقیم رہا  تھا۔ پولیس نے بتایا کہ ان کے پاس حرا کا فون تھا، جو بند ہے۔ پولیس نے بتایا کہ اس کے والد کے بہنوئی کو بھی قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اگر یہ غیرت کے نام پر قتل پایا جاتا ہے اور وہ مجرم پائے جاتے ہیں، تو ان دونوں مردوں کو لازمی عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ 2016 میں حکومت پاکستان کی جانب سے قانون میں تبدیلی کی گئی تھی۔ اس سے پہلے اگر مقتول کے خاندان کی طرف سے معافی دی جاتی ہے تو وہ جیل کی سزا سے بچ سکتے تھے۔ 2023 میں اطالوی کورٹ نے ایک پاکستانی جوڑے کو عمر قید کی سزا سنائی تھی کیوں کہ انہوں نے بھی اپنی 18 سالہ بیٹی کو قتل کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ  بتائی گئی تھی کہ لڑکی نے ارینج میریج کرنے سے انکار کیا تھا۔ پنجاب پولیس کے مطابق صرف پنجاب میں 2023 میں 150 کیسز غیرت کے نام پر قتل میں رپورٹ ہوئے۔

سعودی عرب کی پاکستان میں چھ لاکھ افراد کے لیے موسم سرما کی امداد کا اعلان

Saudi is goint to helpout pakistan

سعودی عرب نے پاکستان کے لیے ایک نئی امداد کا آغاز کیا ہے جس سے تقریباً چھ لاکھ افراد کی زندگیوں میں روشنی آئے گی۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر نے 2025 کے منصوبے کے تحت پاکستان میں موسم سرما کی مدد کے لیے ایک وسیع اور تفصیلی امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے جو سردی کے موسم میں درپیش مشکلات کا شکار افراد کی مدد کرے گا۔ اسلام آباد میں جمعرات کو منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین، پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی، اور شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر پاکستان کے ڈائریکٹر عبداللہ البقامی نے شرکت کی۔ اس موقع پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں موسم سرما کی امدادی کٹس کی تقسیم کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، جس کا مقصد پاکستانی عوام کے لئے اس سخت موسم میں راحت کا سامان فراہم کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں 50 ہزار سرد ترین اور برفباری والے اضلاع کے رہائشیوں کو موسم سرما کی کٹس فراہم کی جائیں گی، جن میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے گرم کپڑے، دو پولیسٹر رضائیاں، اور شالیں شامل ہوں گی۔ اس کے بعد مزید 34 ہزار پانچ سو شیلٹر نان فوڈ آئٹمز قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کے تحت مختص کیے جائیں گے، جو تین اضافی مراحل میں تقسیم کیے جائیں گے۔ یہ امدادی منصوبہ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور مقامی حکام کے ساتھ مل کر انتہائی شفاف اور مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے گا تاکہ ان کی صحیح ضرورت مندوں تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔ امداد کا یہ پیکیج پاکستان کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں تقسیم کیا جائے گا، جہاں سردی سے متاثرہ افراد کی تعداد بے شمار ہے۔ پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ یہ تعاون ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اس امدادی پیکج سے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی۔” رنگین رضائیاں اور گرم شالوں سے بھرے ہوئے یہ پیکجز سردی کی شدت سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ایک نیا سورج بن کر طلوع ہوں گے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، سندھ اور پنجاب کے مختلف حصوں میں ان کٹس کی فراہمی سے لاکھوں افراد کو فوری طور پر راحت ملے گی۔ پاکستان کے وزیر برائے فوڈ سکیورٹی رانا تنویر حسین نے اس تقریب میں کہا کہ”یہ امدادی پیکج پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا ایک اور عکاس ہے اور یہ ہمارے دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔” یہ منصوبہ سعودی عرب کے پاکستان کے لیے تعاون اور محبت کا روشن نشان ہے جو نہ صرف سرد موسم میں پریشانی کا شکار افراد کی مدد کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود تاریخی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد کو مزید مستحکم کرے گا۔ یہ عمل یقینی طور پر پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں خوشی اور سکون لائے گا۔

پاکستان انڈیا کرکٹ جنگ، نیٹ فلکس نے ٹریلر جاری کر دیا

Pak vs ind

نیٹ فلکس کی جانب سے کرکٹ اور سینیماکے شائقین کے لیے ” دی گریٹیسٹ رائولری: انڈیا ورسس پاکستان” کے نام سے سیریز لانے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ سیریز 7 فروری کو نیٹ فلکس پر ریلیز ہوگی۔ نیٹ فلکس نے اپنی ویب سائٹ پر سیریز کا ٹریلر جاری کرتے ہوئے لکھا ۔  “پاکستان اور انڈیا کے درمیان سب سے بڑی جنگ کو کھوجتے ہوئے، یہ ڈاکیومینٹری کرکٹ پیچ کے پیچیدہ ماضی اور غیریقینی حال کی عکاسی کرے گی”۔ ٹریلر میں پاکستان اور انڈیا کے بڑے کھلاڑیوں کو دکھایا گیا ہے جن میں شعیب اختر، رمیز راجہ، وقار یونس، وریندر سہواگ، سارؤ گنگولی، سنیل گواسکر اور شیکر دھون شامل ہیں۔ سیریز کا ٹریلر دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کی جنگ، تاریخی، ثقافتی اور جذباتی پس منظر کے ساتھ دکھاتا ہے۔ لیجنڈ کرکٹرز ٹریلر میں انڈیا بمقابلہ پاکستان کے میچ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔     View this post on Instagram   A post shared by Netflix India (@netflix_in) ٹریلر میں سارؤ گنگولی کہتے ہیں کہ “کہنے کو تو اسے دوستانہ دورے کا نام دیا جاتا تھا لیکن شعیب اختر 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک رہا ہے، اس میں دوستی کہاں ہے؟” یہ سیریز گرے میٹر میڈیا کی جانب سے بنائی جائے گی جس میں چاندرادیو، اور سٹیورٹ سوگ ہدایت کاری کریں گے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے مقابلے سنسنی اور دلچسبی سے بھرپور ہوتا ہے۔  شائقین امید کر رہے ہیں کہ یہ سیریز پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی کرکٹ جنگ کو مزید دلچسب بنائے گی اور ہم محظوظ ہو سکیں گے۔

نیوزی لینڈ نے پہاڑ کو ’انسان‘ کا درجہ دے دیا

Mount egmont feature

نیوزی لینڈ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے نہ صرف قانونی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک پہاڑ، جو مقامی ماؤری قوم کے لیے ایک مقدس روحانی ورثہ تھا، کو انسان کے مساوی حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ قانونی شخصیت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس پہاڑ کا نام ‘تاراناکی ماونگا (Taranaki Maunga)’ ہے، جسے پہلے ‘ماؤنٹ ایگمنٹ’ (Mount Egmont) کہا جاتا تھا۔ تاراناکی ماونگا، جو نیوزی لینڈ کے شمالی جزیرے کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے اب نہ صرف ایک قدرتی عجوبہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے قانونی طور پر ایک زندہ، آزاد اور خود مختار شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو نہ صرف مقامی ماؤری قوم کی ثقافتی ورثہ کا احترام کرتا ہے بلکہ اس پہاڑ کے ساتھ جڑے ہوئے تمام قدرتی عناصر کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیسے ایک پہاڑ کو شخصیت کا درجہ دیا گیا؟ یقیناً یہ سوال ذہن میں آنا فطری ہے کہ آخر ایک پہاڑ کو ‘شخص’ قرار دینے کا مطلب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب نیوزی لینڈ کے حالیہ قانون میں چھپا ہے۔ یہ قانون تاراناکی ماونگا کو تمام انسانی حقوق، اختیارات، ذمہ داریوں اور قانونی معاملات کا حامل بناتا ہے۔ اس پہاڑ کا نیا قانونی نام ‘تِے کاہُویِی ٹُوپُوَا’ (Te Kāhui Tupua) رکھا گیا ہے جو اس پہاڑ کی جسمانی اور روحانی حقیقت کو یکجا کرتا ہے۔ یہ پہاڑ اور اس کے ارد گرد کی سرسبز وادی کو اب ایک واحد، ناقابلِ تقسیم اور زندہ وجود کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جو نہ صرف زمین کی مادی حقیقت بلکہ اس کی روحانی طاقت کو بھی اپنا حصہ مانتا ہے۔ قانون میں اس کے دفاع کے لیے ایک نئی قانونی شخصیت تشکیل دی گئی ہے جس کے پاس تاراناکی ماونگا کے مفادات کا تحفظ کرنے کا اختیار ہوگا۔ تاراناکی ماونگا کی اہمیت صرف اس کی بلندی یا قدرتی خوبصورتی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پہاڑ مقامی ماؤری قوم کے لیے ایک محترم آبا ہے جسے روحانی اور ثقافتی طور پر ان کی زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پہاڑ کے ساتھ جڑی ہوئی کہانیاں اور روایات، ماؤری قوم کی تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں۔ اس کے برعکس، جب نیوزی لینڈ کے ساحل پر برطانوی بحری جہاز ‘ایچ ایم ایس انویجلی’ کے کپتان جیمز کک نے اس پہاڑ کو 1770 میں دریافت کیا تھا تو اسے ‘ماؤنٹ ایگمنٹ’ کا نام دے دیا گیا جو ایک شدید ثقافتی حملہ تھا۔ یاد رہے کہ 1840 میں ماؤری قوم نے برطانوی حکام کے ساتھ ‘ٹریٹی آف ویٹانگی’ (Treaty of Waitangi) پر دستخط کیے تھے، جس میں ماؤری کو اپنی زمین اور وسائل پر حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے کے بعد ہونے والے اقدامات نے ماؤری قوم کے حقوق کو پامال کیا، اور 1865 میں تاراناکی کے علاقے کی زمین کو جبراً ضبط کر لیا گیا۔ اس قبضے کے نتیجے میں نہ صرف ماؤری کی زمین چھین لی گئی بلکہ ان کے ثقافتی ورثہ کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ پچھلی کئی دہائیوں میں ماؤری قوم نے اپنے حقوق کے حصول اور اپنے ورثے کی بحالی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ماؤری احتجاجی تحریک نے اس جدوجہد میں ایک اہم موڑ دیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں نیوزی لینڈ کی حکومت نے ماؤری زبان، ثقافت اور حقوق کے حوالے سے کئی قانونی اصلاحات کیں۔ یہ قانون جو 2023 میں تاراناکی کے آٹھ قبائل کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا حصہ ہے ماؤری قوم کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہے۔ یہ قانون صرف زمین یا قدرتی وسائل کی بازیابی نہیں بلکہ ان کے ثقافتی اور روحانی ورثے کا اعتراف ہے۔ اب جب کہ تاراناکی ماونگا کو قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اس کے حقوق کا استعمال اس کی صحت اور فلاح کے لیے کیا جائے گا۔اس کے حقوق کا تحفظ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس کے خلاف جبراً فروخت، غیر قانونی اقدامات یا اس کی قدیم استعمالات پر پابندیاں نہ لگیں۔ اس کے علاوہ قدرتی جنگلی حیات کے تحفظ اور اس کے قدرتی ماحول کی صفائی کے لیے کام کیے جائیں گے۔ نیوزی لینڈ پہلا ملک ہے جس نے قدرتی عناصر کو انسانی حیثیت دی۔ اس سے پہلے 2014 میں ‘ٹی یوریویرا’ نامی جنگل کو بھی قانونی شخصیت کا درجہ دیا گیا تھا جس کے بعد ‘واہنگانوئی دریا’ (Whanganui River) کو بھی 2017 میں یہی درجہ دیا گیا تھا۔ یہ قانون نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں مکمل طور پر متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کے 123 ارکان نے اس بل کی حمایت کی اور اس موقع پر ماؤری زبان میں ایک نغمہ “وائیاتا” (waiata) گایا گیا جس نے اس تاریخی لمحے کو مزید یادگار بنا دیا۔ یہ قانون صرف ایک پہاڑ یا قدرتی خصوصیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ زمین، انسان اور قدرت کے تعلقات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاراناکی ماونگا کا قانونی شخص بننا نہ صرف ماؤری قوم کی فتح ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی قدرتی ورثہ کے تحفظ کی ایک نئی مثال قائم کرتا ہے۔

دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟

Advance tech

ہمیشہ سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں پہ بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ پرنٹر سے کاغذ چھاپنے سے لے کر جدید ترین مصنوئی ذہانت سے اپنے پیچیدہ ترین سوالات کے جوابات حاصل کرنے تک، ٹیکنالوجی نے ہماری ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آنے والے 10 سالوں میں دنیا کی ٹیکنالوجی کیسی ہوگی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے ہمیں اپنے ماضی کے 10 سالوں کو دیکھنا چاہیے۔ 2015 میں ہمارے پاس بہت کچھ ایسا نہیں تھا جو اس وقت ہماری بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اسی طرح اگلے 10 سال کے بعد بھی ہماری زندگیاں نہایت تیزی سے بدل سکتی ہیں۔ کچھ برس پہلے مصنوئی ذہانت کے آنے سے ہماری زندگیوں میں صحیح معنوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے اور اگلے آنے والے وقت میں یہ مزید ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جائے گا۔ مصنوئی ذہانت سے بننے والی مشینیں جیسا کہ گاڑیاں، روبوٹس اورچھوٹے گیجٹس ہماری زندگیوں کا نہایت ضروری حصہ بن جائیں گی۔ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی اورمصنوعی ذہانت کی ہمارے ساتھ جڑت مزید سے مزید ترہوتی جائے گی۔ یہ بات ممکن ہے کہ ہماری زندگی کے تقریباً تمام کام  ٹیکنالوجی اور مصنوئی ذہانت سے جڑ جائیں گے۔ ہم اپنی آواز استعمال کر کے اپنے تمام کام کروا سکیں گے۔ اس بات کی جھلک ہم اپنے موبائل فونز میں ، الیکسا اور سیری جیسے آپشنز کو استعمال کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے گھروں میں سمارٹ ڈیوائسز کی مدد سے گھر کے کام بھی کرواتے ہیں۔یوں یہ بات ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ 2035 تک ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کا کردار اس حد تک بڑھ جائے گا کہ ہمیں آن لائن اور آف لائن کاموں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اگر ہم صحت کے شعبے کی بات کریں تو پچھلے 10 سے 20 سالوں میں انسانوں کی اوسط عمر میں واضح فرق آیا ہے۔ جہاں پہلے انسانوں کی عمریں 40 یا 50 سال تک ہوا کرتی تھیں، وہیں اب 50 سے 60 سال تک پہنچ چکی ہیں۔ مزیدبراں پیدا ہونے کے بعد پہلے بچوں کی اموات معمول کی بات تھی، وہیں اب یہ بات کم ہی سننے کوملتی ہیں۔ موجودہ دور میں جنیٹک انجینئرنگ ، پرسنالایزڈ ادویات ، اور سٹیم سیلز  جیسے شعبوں میں تیزی ہمیں بتاتی ہیں کہ آنےوالے سالوں میں ایسی کئی بیماریاں ہوں گی جو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی۔ کچھ ایسی بیماریاں جو موروثی طور پہ پائی جاتی ہیں،وہ بھی بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کی جا سکیں گی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ انسان کے بہت سے اندرونی و بیرونی اعضاءباآسانی تبدیل کیے جا سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت کے انجنیئر، ڈین آلیسٹ کے مطابق 2035 تک جن مسائل سے ہم دو چار ہوں گے ان میں سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی ہوگی۔جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نپٹ سکنے کی اہلیت ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ اگلے 10 سالوں میں بڑے پیمانے پہ ہجرت ہونا شروع ہوجائے۔ کیونکہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں، وہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کریں گے۔ جس کی وجہ سے سے ترقی یافتہ ممالک میں وسائل تیزی سے کمی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اگلے 10 برس بعد موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگیوں پر نہایت خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ تاہم اصل صورتِ حال 2035 کے آنے سے ہی واضح ہو گی لیکن ان تمام باتوں کے وقوع پذیر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروفیسر کامران علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال سے بعض روایتی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں خاص طور پر وہ جو معمول کے کاموں پر مبنی ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ڈیٹا سائنس، اے آئی ماڈلنگ اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ جیسے شعبوں میں نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔” دوسری جانب اس حوالے سے آئی ٹی سپیشلسٹ سارہ ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اے آئی کی ترقی سے انسانی ملازمتوں پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اس تبدیلی کو مثبت انداز میں لیں۔ ملازمین کو نئی مہارتیں سیکھنے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ مستقبل کی ملازمتوں کے لیے تیار رہ سکیں۔” پروفیسر کامران علی نے اگلے 10 سالوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “2035 تک ٹیکنالوجی اور انسان کے تعلقات میں مزید گہرائی متوقع ہے۔ ہم ذہین ذاتی معاونین، صحت کی نگرانی کے لیے پہننے والے آلات اور ذہنی کنٹرول والے پروستھیٹکس جیسے انقلابی اقدامات دیکھ سکتے ہیں جو انسانی زندگی کو بہتر بنائیں گی۔” دوسری جانب سارہ ملک کا خیال ہے کہ “مستقبل میں انسان اور ٹیکنالوجی کا انضمام مزید مضبوط ہوگا۔ مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کے امتزاج سے ہم انسانی صلاحیتوں میں اضافہ اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتری کی توقع کر سکتے ہیں۔” پروفیسر کامران علی نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے، کاربن کے اخراج کی نگرانی، اور موسمیاتی پیش گوئیوں میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ ماحولیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں بھی معاون ہے۔” اس حوالے سے سارہ ملک کا ماننا ہے کہ “اے آئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تجزیہ اور ان کے حل تلاش کر سکتے ہیں۔ تاہم ان ٹیکنالوجیز کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاکہ ان کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کیا جا سکے۔” صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے فروغ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر کامران نے کہا کہ “صحت کے شعبے میں اے آئی کی ترقی سے بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جینیاتی تجزیہ اور ذاتی نوعیت کے علاج کے ذریعے ہم مستقبل میں کئی بیماریوں کے مؤثر علاج اور ممکنہ طور پر ان کے خاتمے

پاکستانی نوجوان نے کارخانوں، فصلوں کی نگرانی کے لیے اے آئی کیمرے متعارف کرا دیے

Web image

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئی ٹی ایکسپو کا دلچسپ اور معلوماتی میلا سجایا گیا۔ شرکا کے سامنے پیش کیے گئے اے آئی کیمروں  نے خوب توجہ سمیٹی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے مانیٹرنگ اور نگرانی کے میدان میں منفرد پیشکش قرار دیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق آپ ان کیمروں کو اپنی مرضی کی کمانڈز دے کر کہیں سے بھی مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کیمرے کسی کارخانے میں نصب ہوں، تو آپ کیمروں ہدایات دے سکتے ہیں کہ جتنے ڈبے بن رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی ڈبہ خراب ہو تو یہ فوری طور پر اس کی نشاندہی کرکے پروڈکشن چین کو اطلاع دیں گے۔ ایک کسان نے ڈرون کیمرے میں ایسی کمانڈ شامل کروائی ہے جس سے ڈرون اس کی فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ فصل کمزور ہو رہی ہو، تو یہ ڈرون فوراً اطلاع دے کر کسان کو مسئلے کا حل نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جدید کیمرے نہ صرف سکیورٹی اور مانیٹرنگ کے لیے بہترین ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں استعمال کے لیے کارآمد ہیں۔

اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہوتی تو ایک کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی: شبلی فراز

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات 3 نشستوں کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے بائیکاٹ کر دیا گیا تھا ، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر مذاکرات کے لیے پیشکش کی، مگر پی ٹی آئی کی طرف سے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شبلی فراز نے ہاؤس کمیٹی بنانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ موثر طریقہ نہیں ہے۔ شبلی فراز نے وزیر اعظم کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا  اصل مسئلہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ حکومتی رویہ کا ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ہاؤس کمیٹی کی تجویز قابل عمل حل نہیں، اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہوتی تو ایک کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے جوڈیشل کمیشن کے مطالبے کو دہرایا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایسا ادارہ عوامی اعتماد کو متاثر کرے گا۔ہم عدالتی کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ لوگوں کو اس پر اعتماد ہے۔ ہاؤس کمیٹی کی تجویز مناسب نہیں ہے۔ شبلی فراز نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی کال کا مقصد ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ “ہم نے سیاسی بحران کے حل اور ملک کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے بات چیت پر اتفاق کیا۔” پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ کسی بھی مذاکرات کی کامیابی کے لیے حکومت کا اخلاص اور عمل کے لیے عزم ضروری ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حکومت کو جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ شبلی فراز کے مطابق پی ٹی آئی کی بنیادی توجہ قانون اور انصاف پر ہے، جس کی پیروی کرنے کے لیے وہ پرعزم ہیں، چاہے انہیں کسی بھی سیاسی چیلنج کا سامنا ہو۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ ہم وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔ پارٹی کے موقف کی توثیق کرتے ہوئے عمرایوب نے اس بات پر زور دیا کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے نیک نیتی سے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ “ہمارے مطالبات واضح تھے،” انہوں نے پی ٹی آئی کے تمام “سیاسی قیدیوں” کی رہائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا۔ قبل ازیں وزیراعظم  شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے جاری مسائل کے حل کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے ساتھ پہلے ہونے والے مذاکرات کو یاد کیا، جو پی ٹی آئی کی پیشکش کے بعد کمیٹی کی تشکیل سے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ذریعے تحریری مطالبات جمع کرائے تھے جن کا حکومتی کمیٹی سے تحریری جواب کی توقع ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے 28 جنوری کو ہونے والا اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔

’جو انصاف کا ادارہ ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے‘ عمران خان نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا

Imran khan writing letter

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو ایک خط لکھا ہے، جو 349 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس خط میں پاکستان کے آئینی نظام کی تباہی پر بات کی گئی ہے۔ اس خط میں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیوں بلکہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان کے خط میں ایک طرف جہاں انتخابات میں دھاندلیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جبری گمشدگیاں، جسمانی تشویشات اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے اپنی اس تحریر میں دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2024 کے آخر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسپتالوں کے ریکارڈز کو سیل کرکے بعد میں ان میں تبدیلیاں کی گئیں۔ عمران خان نے اپنی تحریر میں عدالت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “جو ادارہ انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے”۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدلیہ نے انتخابات میں دھاندلیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف متعدد درخواستوں پر کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی۔ خط میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف ریاستی جبر کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کارکنان جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے اور انہیں تشویشات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ موجودہ حکومت نے انتخابی دھاندلی اور تاریخی دھاندلیوں کے ذریعے اقتدار میں آ کر پی ٹی آئی کو جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ جس کا عمران خان نے ذکر کیا، وہ ان کی اپنی گرفتاری تھی۔ انہوں نے 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت سے غیر قانونی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس گرفتاری کو جان بوجھ کر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا تاکہ عوامی غصے کو بھڑکایا جا سکے۔ عمران خان نے کہا کہ جب وہ ریاستی جبر کے خلاف ہائی کورٹ میں پناہ لینے گئے تو ان پر حملہ کیا گیا، اور بعد میں سپریم کورٹ نے اس آپریشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عمران خان نے مزید الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف پرامن احتجاجوں کو ناکام کرنے کے لئے تشدد کو بڑھایا گیا اور ان احتجاجوں میں خفیہ طور پر انارکی پھیلانے والے افراد کو شامل کیا گیا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر بھی عمران خان نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شبلی فراز نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی کمیٹی بنانا حل نہیں ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ تھی تو مذاکرات کے لیے کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی۔ عمران خان نے اپنے خط میں ایک اور اہم معاملے کی طرف بھی اشارہ کیا، جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی شکایت سے متعلق تھا جس میں انہوں نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے الزامات لگائے تھے۔ عمران خان نے اس معاملے کو ‘انتہائی سنجیدہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے آزادی کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ خط کے اختتام پر عمران خان نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام مسائل پر فوری طور پر کارروائی کریں اور پاکستان کے آئین کی پامالی کرنے والوں کو سزا دیں تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔ عمران خان نے کہا کہ “اگر سپریم کورٹ نے ان مسائل پر کارروائی نہ کی تو ملک آئینی بحران کی طرف مزید بڑھ جائے گا اور ہم ایک ایسی صورتحال میں پہنچ جائیں گے جہاں ‘طاقت ہی درست ہے’ کا قانون رائج ہوگا۔“ آخرکار عمران خان نے چیف جسٹس کو یاد دلایا کہ اس وقت قوم ان کی جانب دیکھ رہی ہے کہ آیا وہ پاکستان کے آئین اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں پر عمل کریں گے یا یہ صرف لفظی باتیں ہوں گی۔ یہ خط پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اہم موڑ کا اشارہ دے رہا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز اس پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں۔ یہ معاملہ اب صرف پی ٹی آئی یا عمران خان کا نہیں، بلکہ پورے ملک کے آئین اور عدلیہ کے مستقبل کا سوال بن چکا ہے۔

بورڈ آف ریونیو نے شکارگاہ چولستان حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دے دیا

پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کے اثرات اور ریاستی زمینوں کے مستقبل پر بحث ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب لینڈ کمیشن نے ایک اہم سرکاری خط کے ذریعے وفاقی حکومت کو شکارگاہ چولستان کی ملکیت کے حوالے سے حتمی قانونی مؤقف فراہم کیا ہے۔ اس خط میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ شکارگاہ چولستان حکومت پنجاب کی ملکیت ہے اور نواب آف بہاولپور کے وارثان اس پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ یہ معاملہ کئی دہائیوں سے مختلف قانونی اور عدالتی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ تاہم اب پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں حتمی اعلان کر دیا ہے کہ شکارگاہ مکمل طور پر صوبائی ملکیت ہے۔ پنجاب لینڈ کمیشن کی جانب سے یہ جواب وفاقی حکومت کے 9 جنوری 2025 کے خط کے ردعمل میں جاری کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے اس خط میں پنجاب کے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر سے مرحوم نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کی غیر منظم جائیداد کے لیے تشکیل دی گئی نفاذ کمیٹی کے حوالے سے وضاحت طلب کی تھی۔ پنجاب لینڈ کمیشن نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کے فیصلوں، آئینی و قانونی دفعات اور انتظامی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ شکارگاہ کسی بھی نجی فرد یا خاندان کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ پنجاب لینڈ کمیشن کے مطابق “1961 کے ایکٹ کے تحت اور 1969 کے امیر بہاولپور آرڈر کے مطابق ڈیراور میں کچھ غیر منقولہ جائیداد کے علاوہ پوری شکارگاہ حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دی جا چکی ہے؛ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین اہم فیصلے اس معاملے پر موجود ہیں جو تمام عدالتی اور انتظامی اداروں کے لیے لازم العمل ہیں؛ 1972 کے MLR-115 کے پیرا 16 کے مطابق شکارگاہ کے تمام علاقے حکومت کے حق میں بحال کر دیے گئے ہیں اور اس زمین پر کسی بھی شخص کو کوئی ملکیتی حق یا مالی معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔” یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں متعدد مرتبہ زیر بحث آ چکا ہے جہاں عدالت نے اس زمین کو حکومت پنجاب کی ملکیت قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق “سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت یہ زمین ایک سرکاری اثاثہ ہے اور اس کی نجکاری یا کسی فرد کو منتقلی ممکن نہیں۔ نواب آف بہاولپور کے ورثہ اس زمین پر کوئی قانونی مطالبہ نہیں کر سکتے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف کسی جوڈیشل یا انتظامی افسر کو حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں۔ ایسا کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔ یہ فیصلے پاکستان کے تمام عدالتی اور انتظامی اداروں پر لاگو ہوتے ہیں، اور ان کے برخلاف کوئی بھی دعویٰ قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔” دوسری جانب نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کے ورثا کئی سالوں سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ شکارگاہ ان کے آباؤ اجداد کی ملکیت تھی، اور انہیں اس پر حق دیا جائے۔ تاہم پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے نے ان تمام دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔ پنجاب لینڈ کمیشن نے واضح کیا کہ “یہ زمین ریاستی اثاثہ ہے اور اس پر کسی خاندان یا فرد کا حق نہیں ہو سکتا۔ بحال شدہ شکارگاہ کی وراثت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نجی جائیداد نہیں بلکہ عوامی ملکیت ہے۔ پنجاب حکومت ہی شکارگاہ چولستان کی نگران اور کسٹوڈین ہے، اور اسی کے تحت اس کا انتظام چلایا جائے گا۔” پنجاب حکومت نے تمام ضلعی اور ڈویژنل افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ “تمام سرکاری محکموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ شکارگاہ سے متعلق کسی بھی قسم کے ملکیتی دعوے کو مسترد کر دیا جائے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ اس معاملے پر دوبارہ قانونی کلیم کرتا ہے تو اسے فوراً رد کر دیا جائے گا اور قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ کو حکم دیا گیا ہے کہ شکارگاہ کی مکمل حفاظت اور سرکاری کنٹرول کو یقینی بنایا جائے۔” علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے اس خط کی کاپیاں تمام متعلقہ حکام کو بھیج دی ہیں تاکہ اس معاملے پر کوئی ابہام باقی نہ رہے اور سرکاری زمین کو محفوظ بنایا جا سکے۔ شکارگاہ چولستان، جو کہ تین لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل ہے، ریاست بہاولپور کے دور میں نواب کی ذاتی ملکیت تھی۔ تاہم 1971 میں پاکستان میں ریاستی نظام کے خاتمے کے بعد بہاولپور سمیت تمام نوابی ریاستوں کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔اس کے بعد 1972 کے MLR-115 قانون کے تحت حکومت نے کئی نوابی جائیدادوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جن میں شکارگاہ بھی شامل تھی۔ اس دوران نواب کے خاندان کو کچھ جائیدادیں واپس دی گئیں لیکن شکارگاہ کو عوامی اثاثہ قرار دے کر حکومت پنجاب کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں حکومت کے مؤقف کو درست قرار دیا گیا۔ پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ شکارگاہ چولستان مکمل طور پر حکومت پنجاب کی ملکیت رہے گی۔ اس پر نواب آف بہاولپور کے وارثان کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر کسی نے اس حوالے سے کوئی قانونی کارروائی کی تو اسے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں فوراً خارج کر دیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نواب خاندان اس فیصلے پر کیا ردِ عمل دیتا ہے، اور کیا اس معاملے میں کوئی نئی قانونی جنگ شروع ہوتی ہے یا نہیں۔ تاہم، حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ حتمی ہے او اس پر مکمل عمل درآمد کیا گا۔