Iran attack israael

📢 تازہ ترین اپ ڈیٹس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو کہا ہے کہ ایران نے ان سے رابطہ کیا ہے مگر ان کے مطابق اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ’ایران مشکل میں ہے اور وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔‘

ایران کے آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو قبول نہیں کرے گا۔

اقوامِ متحدہ میں ایران کے مندوب، علی بحرینی نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کو بھی وہی جواب دے گا جو اسرائیل کو دیا گیا۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں خبرداد کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل تنازع میں کسی بھی قسم کی امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں امریکہ کو ’ناقابلِ نقصان‘ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس بیان میں ایران کے رہبرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی قسم کی امریکی فوجی مداخلت کا جواب ناقابلِ تلافی نقصان سے دیا جائے گا۔‘ آیت اللہ علی خامنہ ای کا تازہ بیان ایران کے سرکاری ٹی وی چینل پر میزبان نے پڑھ کر سُنایا اور یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ خبریں چل رہی ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ’وہ علقمند لوگ جو ایران کو، اس کے عوام کو اور اس کی تاریخ کو جانتے ہیں وہ کبھی بھی اس قوم سے دھکمی آمیز زبان میں گفتگو نہیں کریں گے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ ایرانی عوام کبھی سرینڈ نہیں کرتے۔‘


مکمل تفصیلات:

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ چھٹے روز میں داخل ہو چکی ہے اور حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ بدھ کو علی الصبح ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل داغے گئے، جن کی گونج تل ابیب میں سنائی دی۔

اسرائیلی فوج نے ان حملوں کی تصدیق کی مگر تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ اس کے ردعمل میں اسرائیل نے تہران کے شہریوں سے کہا کہ وہ شہر خالی کر دیں تاکہ عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکے۔

ایران کی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق تہران اور کاراج کے مغربی علاقوں میں رات گئے زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صورت حال مزید سنگین اس وقت بنی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ’غیر مشروط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ امریکہ کا صبر اب ختم ہو رہا ہے۔

مزید تفصیلات: ایران اسرائیل جنگ، پہلے تین روز میں کیا ہوا؟

صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ فی الحال ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر یہ صورتحال مستقل نہیں رہے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکا کو معلوم ہے خامنہ ای کہاں موجود ہیں، اور فی الوقت ان کو نشانہ نہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

Iran attack israel
اب تک امریکا نے اسرائیل کو میزائل ڈیفنس کے ضمن میں تکنیکی مدد دی ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

ان کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا جنگ میں براہ راست شامل ہونے پر غور کر رہا ہے، حالانکہ امریکی حکام تاحال صرف دفاعی اقدامات کی بات کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کی ان دھمکیوں اور بیانات نے جنگی بحران کے گرد غیر یقینی کی فضا مزید گہری کر دی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کی اور کینیڈا میں جاری جی سیون اجلاس کو درمیان میں چھوڑ کر امریکا واپس پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے قومی سلامتی کونسل کے اعلیٰ عہدیداروں سے طویل ملاقات کی جس میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع پر تبادلہ خیال ہوا، لیکن اس ملاقات کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

امریکا کے تین سرکاری ذرائع کے مطابق واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی طیارے اور دیگر عسکری سازوسامان تعینات کر رہا ہے۔ اب تک امریکا نے اسرائیل کو میزائل ڈیفنس کے ضمن میں تکنیکی مدد دی ہے، لیکن براہ راست کسی حملے میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔

مزید جانیں: ایران اسرائیل جنگ، کب کیا ہوا؟