Iran israel conflict

📢 تازہ ترین اپ ڈیٹس

بی بی سی فارسی کے مطابق ایرانی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ایران میں ایک اور ایٹمی سائنسدان ایثار طباطبائی قمشه اور ان کی اہلیہ اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں۔ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق انہیں ویک اینڈ پر ان کے گھر پر اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایران کے اخبار شریف کے مطابق ایثار طباطبائی قمشه ایران کی جوہری صنعت سے منسلک سائنسدان تھے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق وہ 2004 میں مکینیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز کا طالب علم رہے اور اسی شعبے میں 2007 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور ملک کی جوہری صنعت مکے ساتھ منسلک رہے۔

ایران کے مقامی میڈیا نے ایرانی پاسدارانِ انقلاب آئی آر سی جی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران کے شہر خرم آباد میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایران کی نور نیوز ایجنسی کے مطابق، تنازع کے آغاز سے اب تک ایران کی فضائی دفاعی فورسز کے 15 افسران اور اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ 13 جون سے جاری اسرائیلی حملوں کا ہدف ایران کے جوہری اور عسکری مراکز ہیں، جن میں کئی اہم فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنسدانوں کو ہلاک کیا گیا، جب کہ حملے ایران کی شہری اور سرکاری تنصیبات پر بھی کیے گئے، جن میں سرکاری ٹی وی کی عمارت بھی شامل ہے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کارٹز کا کہنا ہے کہ قم پر حالیہ اسرائیلی حملے کا ہدف محمد سعید ایزدی تھے جو ایرانی قدس فورس کے فلسطینی امور کے شعبے کے سربراہ تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایزدی وہی کمانڈر تھے جنھوں نے 7 اکتوبر 2023 سے قبل حماس کو مالی اور عسکری مدد فراہم کی تھی۔ کارٹزنے دعویٰ کیا کہ وہ اس حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایران نے اس دعوے پر تاحال کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ قم میں ہونے والے اس حملے میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے، جن میں ایرانی میڈیا کے مطابق ایک 16 سالہ نوجوان بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ محمد سعید ایزدی پچھلے سال دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے میں بال بال بچ گئے تھے، جس میں قدس فورس کے سینیئر کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمدرضا زاہدی سمیت کئی افراد مارے گئے تھے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز کے مطابق اسرائیل میں رات کو لگ بھگ 2:30 بجے صہیونی فوج نے ایران کی طرف سے آنے والے میزائلوں کے بارے میں اپنے عوام کو خبردار کیا اور وسطی اسرائیل کے کچھ حصوں بشمول تل ابیب کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں بھی فضائی حملے کے سائرن بجنے لگے۔ ایران سے فائر کیے گئے میزائل وسطی اسرائیل کے علاقے ڈین گش میں بھی گرے۔ صہیونی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس کے فضائی دفاعی نظام نے تل ابیب کی طرف آنے والے تمام میزائلز کو ہوا میں ناکام بنا دیا۔ ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے کہا کہ ایران نے پانچ بیلسٹک میزائل داغے اور میزائل کے اثرات کے فوری طور پر کوئی اشارے نہیں ملے۔ تاہم اسرائیل کی قومی ایمرجنسی سروس میگن ڈیوڈ ایڈوم نے کہا کہ ایران کی جانب سے کیے گئے نئے حملے وسطی اسرائیل میں ایک عمارت کی چھت پر آگ لگنے کی اطلاع ملی۔

امریکہ کی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس، تلسی گبارڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسی معلومات موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اگر ایران چاہے تو وہ چند ہفتوں میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انھوں نے میڈیا پر الزام لگایا کہ اس نے مارچ میں سینیٹ کمیٹی میں دی گئی ان کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی کا ماننا ہے کہ ایران فی الحال جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ تلسی گبارڈ ایران کے ارادوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ دوسری جانب، ایران متعدد بار واضح کر چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اسے پرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی کا حق حاصل ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران اسرائیل صورتحال پر نظر ہے، مذاکرات سے پہلے سیزفائر چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایران ایٹمی طاقت بننے کے قریب تھا۔ میں عراق جنگ کے بھی خلاف تھا۔مجھے پاکستان اور انڈیا کے مابین جنگ بندی کرانے پر نوبل پرائز دو۔ نوبل پرائز صرف لبرلز کو ملتا ہے، مجھے نہیں دین گے۔ ایران پر حملوں کے حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ایران اسرائیل تنازعہ پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے ریاست کے نکتہ نظر کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے ایران اسرائیل جنگ کو فوراً بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ نے اس دور کو فیصلہ کن لمحہ قرار دیا اور اجتماعی مستقبل اور اجتماعی ذمہ داری کی بات کی جس سے مکمل طور پر متفق ہوں، لڑائی ختم کرنے اور مذاکرات کی طرف لوٹنے کی اپیل قابل تحسین ہے۔

جنیوا میں یورپی وزرا خارجہ اور ایرانی وفد کے درمیان ملاقات ختم ہو گئی ہے۔ ملاقات کے اختتام کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یورپی کمیشن کی نائب صدر کایا کلاس کا کہنا تھا کہ خطے میں کشیدگی ’کسی کے لیے بھی فائدے مند‘ نہیں اور اسی لیے ’ہمیں گفتگو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا۔’ہم ایران سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھے۔یہ ایک خطرناک لمحہ ہے اور ’سب سے اہم‘ یہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی شدت میں کمی آئے۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی مندوب نے کہا ہے کہ اسرائیل نے جارحیت کرکے ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع کے جاری رہنے سے دنیا ایک بحران کی جانب بڑھ رہی ہے۔اس تنازعے کے پھیلنے سے ایک ایسی آگ بھڑک سکتی ہے جس پر کوئی قابو نہیں پا سکتا، تنازعے کا مرکز ’جوہری سوال‘ ہے۔ایران نے بارہا کہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں نہیں بنانا چاہتا لیکن آئیے تسلیم کرتے ہیں کہ اعتماد کا فقدان ہے۔‘

اسرائیلی حکومت کے سیکرٹری یوسی فاکس نے کہا ہے کہ ایران سے 520 میزائل داغے گئے جن میں سے صرف 25 گرے جو کہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔

تہران میں بڑے پیمانے پر اسرائیل مخالف مظاہرے شروع ہوتے ہی ایران نے اسرائیل پر میزائل داغ دیے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ایرانی حملے میں حیفہ میں دو لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔

عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ ٹرمپ جلد از جلد جنگ میں داخل ہوں۔ دوسری جانب سعودی ریگولیٹر نے کہا ہے کہ سویلین نیوکلیئر سائٹس پر حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔برطانیہ تل ابیب سے چارٹر پروازوں کا بندوبست کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ کام کر رہا ہے۔اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ مغربی، وسطی ایران پر حملہ کر رہا ہے۔

اسرائیلی حملوں اور امریکی دھمکیوں کے خلاف تہران میں ہزاروں افراد کا مارچ جاری ہے، یہ مارچ بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کی غرض سے ثالثی کے لیے تیار ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ ’عدم استحکام اور جنگ کے گڑھے میں دھنس رہا ہے، ماسکو ان واقعات پر فکر مند ہے اور ثالثی کے لیے تیار ہے۔

ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ’ہم نے ہمیشہ امن و امان کی کوشش کی ہے لیکن موجودہ حالات میں مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ دشمن کی جارحیت کو ’غیر مشروط طور پر روکنا‘ ہے۔ سماجی رابطی کی سائٹ ایکس پر انھوں نے لکھا کہ امن کے لیے ضروری ہے کہ ’صیہونی دہشت گردوں کی مہم جوئی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی یقینی ضمانت فراہم کی جائے۔‘ انھوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ’بصورت دیگر دشمن کے خلاف ہمارا ردعمل زیادہ سخت اور افسوسناک ہوگا۔‘ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی یورپی وزرائے خارجہ اور ان کے ایرانی ہم منصب کے درمیان آج طے شدہ مذاکرات سے قبل جنیوا پہنچ گئے ہیں۔

اسرائیلی ایمرجنسی سروسز کے مطابق بیر شیبہ میں ایرانی میزائل حملے میں پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ میزائل متعدد رہائشی عمارتوں کے قریب گرا جس سے قریبی گھروں کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ امریکی ٹی وی چینل سی این این کے مطابق یہ میزائل جس جگہ گرا وہاں ٹیکنالوجی پارک بھی تھا جہاں امریکی ٹیکنالوجی مائیکروسافٹ کا دفتر بھی موجود تھا۔

ایران نے ماجد خادمی کو پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس سروس کا نیا سربراہ مقرر کردیا۔ ایرانی میڈیا نے ماجد خادمی کو پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس سروس کا نیا سربراہ بنائے جانے سے متعلق اطلاعات دی ہیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق جنرل ماجد خادمی وزارتِ دفاع میں انٹیلی جنس پروٹیکشن آرگنائزیشن کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس چیف بریگیڈیئر جنرل محمد کاظمی اور ان کے نائب تہران میں ایک اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے تھے۔

اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ جمعہ کی صبح ایران کی طرف سے داغے گئے ایک بیلسٹک میزائل نے جنوبی اسرائیل کے نیگیو میں واقع بیر شیبہ میں املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل نے اطلاع دی ہے کہ راکٹ رہائشی کمپلیکس کے قریب گرا جس سے کئی کاروں کو آگ لگ گئی اور قریبی گھروں کو نقصان پہنچا۔ اسرائیلی ایمبولینس اتھارٹی کے مطابق جنوبی اسرائیل میں سائرن کی آوازیں سنائی دینے کے بعد اب تک کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔

سوروکا اسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف اس آپریشن کے اختتام تک اسرائیل کو کوئی جوہری خطرہ نہیں ہوگا اور نہ ہی بیلسٹک میزائل کا خطرہ ہوگا۔ اسرائیل پہلے ہی ایران کے جوہری پروگرام کو ’بہت زیادہ‘ نقصان پہنچا چکا ہے۔

بی بی سی اردو کے مطابق برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی سے پیچھے ہٹ جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل امریکا کے ساتھ بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں اور ’میرے خیال میں یہی اس مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ ہے۔ تمام فریقین تنازع کا سفارتی حل تلاش کریں۔

ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور نے ان علاقوں کے لیے انخلا کی وارننگ جاری کی ہے، جہاں اسرائیل کا ڈیمونا جوہری پلانٹ واقع ہے۔

غیر ملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اسرائیلی فوجی عہدیدار نے کہا ہے کہ فوجی ترجمان کی جانب سے یہ کہنا کہ اسرائیل نے ایران میں بوشہر جوہری سائٹ پر حملہ کیا ہے، وہ ایک غلطی تھی۔ فوجی عہدیدار نے صرف اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل نے ایران میں نطنز، اصفہان اور اراک جوہری مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ بوشہر پر حملے کے حوالے سے عہدیدار نے کہا کہ وہ اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے کہ اسرائیل نے اُس مقام پر حملہ کیا ہے، جہاں ایران کا ایک ری ایکٹر ہے۔

اسرائیل کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اسرائیلی وزارت صحت نے کہا ہے کہ ایرانی میزائلوں سے کم از کم 240 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے چار کی حالت تشویش ناک ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا ہے کہ ’پاکستان کا مؤقف ایران پر واضح اور شفاف ہے۔ ہم ایران کی بھرپور اخلاقی حمایت کرتے ہیں۔ ہم ایران پر جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہیں، ہم اسرائیل کے پاگل پن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘

عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے 'مشرق سے' ڈرون کو مار گرایا ہے، انہوں نے وادی اردن کے اوپر ڈرون کو روکا۔ اسرائیل کے اروٹز شیوا میڈیا کے مطابق یہ رپورٹ علاقے میں سائرن بجنے کے فوراً بعد سامنے آئی۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایران نے نطنز اور خنداب میں جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی اطلاععات عالمی ایٹمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دے دی ہے۔ تہران نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اور عالمی قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ خنداب میں اراک جوہری ری ایکٹر پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اسرائیل نے ایران کے ایک اہم جوہری مرکز کو نشانہ بنایا، جبکہ ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کے ایک اسپتال کو ہدف بنایا۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آیا امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر تہران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے فضائی حملوں میں شامل ہوگا یا نہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، جنہوں نے ایران پر اسرائیل کے تاریخ کے سب سے بڑے حملے کو اس وقت تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جب تک کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ نہ ہو جائے، کا کہنا ہے کہ تہران کے "ظالم حکمرانوں" کو "پورا خمیازہ" بھگتنا پڑے گا۔

اسرائیل کی ریسکیو سروس نے آج جمعرات کو کہا کہ ایران کے تازہ ترین میزائل حملوں کے بعد کم از کم 32 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے کہا کہ ’(حملے میں) درجنوں بیلسٹک میزائل‘ ملوث تھے ایک بیان میں ریسکیو سروس کے ترجمان نے کہا کہ طبی ماہرین ’طبی علاج فراہم کر رہے ہیں اور دو افراد کو تشویشناک حالت میں ہسپتالوں میں منتقل کر رہے ہیں، اور ساتھ ہی دھماکے اور چھرے سے زخمی ہونے والے 30 افراد بہتر حالت میں ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ریسکیو سروس کی اضافی ٹیمیں ’متعدد مقامات پر کئی زخمیوں کا علاج کر رہی ہیں۔

جیسے جیسے قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ امریکا ایران پر اسرائیلی حملوں میں شامل ہو سکتا ہے، واشنگٹن نے اپنے فوجی اثاثے مشرق وسطیٰ بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل بی بی سی کے امریکی شراکت دار سی بی ایس نے خبر دی تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی رات ایران پر حملے کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، تاہم حملہ کرنے کا حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ایک امریکی عہدیدار نے بتایا تھا کہ اس وقت خطے میں تقریباً 40,000 امریکی فوجی موجود ہیں۔ گذشتہ چند روز میں امریکہ نے کم از کم 30 فوجی طیارے یورپ منتقل کر دیے ہیں۔ یہ تمام ٹینکر طیارے ہیں جو لڑاکا اور بمبار طیاروں کی ری فیولنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس نمٹز اور گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائرز پر مشتمل امریکی بحری بیڑہ جنوبی بحیرہ چین سے مشرق وسطیٰ کی جانب گامزن ہے۔ دیگر جنگی بحری جہاز خلیج عمان اور خلیج فارس میں تعینات ہیں۔ یہ جہاز پہلے ہی ایرانی میزائلوں کو مار گرانے میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، واشنگٹن نے ایف-16، ایف-22 اور ایف-35 لڑاکا طیاروں کو بھی مشرق وسطیٰ میں اڈوں پر منتقل کر دیا ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تازہ ایرانی میزائل حملوں میں جنوب اسرائیل کے سب سے بڑے ہسپتال کو نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے داغے میزائلوں میں سے کئی مختلف مقامات پر گرے ہیں۔ اس سے قبل ایرانی خبر رساں اداروں فارس اور تسنیم نے خبر دی تھی کہ ایران نے اسرائیل پر میزائلوں سے ایک اور حملہ کیا ہے۔ آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے میزائل داغے جانے کے بعد ملک بھر میں خطرے کے سائرن بجائے گئے اور لاکھوں افراد کو شیلٹرز میں پناہ لینی پڑی۔ خبر رساں ادارے الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی شہروں تل ابیب اور یروشلم میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں اور اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ کم از کم چار میزائل ملک کے مختلف مقامات میں گرے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو کہا ہے کہ ایران نے ان سے رابطہ کیا ہے مگر ان کے مطابق اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ’ایران مشکل میں ہے اور وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔‘

ایران کے آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو قبول نہیں کرے گا۔

اقوامِ متحدہ میں ایران کے مندوب، علی بحرینی نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کو بھی وہی جواب دے گا جو اسرائیل کو دیا گیا۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں خبرداد کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل تنازع میں کسی بھی قسم کی امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں امریکہ کو ’ناقابلِ نقصان‘ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس بیان میں ایران کے رہبرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی قسم کی امریکی فوجی مداخلت کا جواب ناقابلِ تلافی نقصان سے دیا جائے گا۔‘ آیت اللہ علی خامنہ ای کا تازہ بیان ایران کے سرکاری ٹی وی چینل پر میزبان نے پڑھ کر سُنایا اور یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ خبریں چل رہی ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ’وہ علقمند لوگ جو ایران کو، اس کے عوام کو اور اس کی تاریخ کو جانتے ہیں وہ کبھی بھی اس قوم سے دھکمی آمیز زبان میں گفتگو نہیں کریں گے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ ایرانی عوام کبھی سرینڈ نہیں کرتے۔‘


مکمل تفصیلات:

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے اور حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب ایران نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر جاری بیان میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جوابی حملوں کے حالیہ مرحلے میں ایرانی ڈرونز نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

ہفتے کی صبح جاری کیے گئے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آپریشن وعدہ صادق 3‘ کے تحت اسرائیل پر 18ویں حملے کی لہر کا آغاز کیا گیا ہے، جو ایک منظم اور جدید ہتھیاروں سے لیس کارروائی ہے۔

اس مرحلے میں ایران نے خودکش اور لڑاکا ڈرونز کے ساتھ جدید میزائلوں کا بھی استعمال کیا، جن میں ہدف کو انتہائی درستگی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔

ان میزائلوں میں ٹھوس اور مائع دونوں قسم کے ایندھن کا استعمال کیا گیا، جو انہیں طویل فاصلے تک مار کرنے اور مختلف قسم کے اہداف پر حملہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔

ایرانی بیان کے مطابق، ان حملوں کا ہدف مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے مرکزی حصے، بن گوریون ایئرپورٹ، اسرائیلی فوج کے ٹھکانے، اور ان کے آپریشنل و لاجسٹک مراکز تھے۔ ان حملوں کو ایران کی جانب سے اسرائیلی کارروائیوں کا بھرپور جواب اور جنگ کو ایک نئی سطح پر لے جانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے ان حملوں کی تصدیق کی مگر تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ اس کے ردعمل میں اسرائیل نے تہران کے شہریوں سے کہا کہ وہ شہر خالی کر دیں تاکہ عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکے۔

ایران کی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق تہران اور کاراج کے مغربی علاقوں میں رات گئے زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صورت حال مزید سنگین اس وقت بنی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ’غیر مشروط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ امریکہ کا صبر اب ختم ہو رہا ہے۔

مزید تفصیلات: ایران اسرائیل جنگ، پہلے تین روز میں کیا ہوا؟

صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ فی الحال ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر یہ صورتحال مستقل نہیں رہے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکا کو معلوم ہے خامنہ ای کہاں موجود ہیں، اور فی الوقت ان کو نشانہ نہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

Iran attack israel
اب تک امریکا نے اسرائیل کو میزائل ڈیفنس کے ضمن میں تکنیکی مدد دی ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

ان کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا جنگ میں براہ راست شامل ہونے پر غور کر رہا ہے، حالانکہ امریکی حکام تاحال صرف دفاعی اقدامات کی بات کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کی ان دھمکیوں اور بیانات نے جنگی بحران کے گرد غیر یقینی کی فضا مزید گہری کر دی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کی اور کینیڈا میں جاری جی سیون اجلاس کو درمیان میں چھوڑ کر امریکا واپس پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے قومی سلامتی کونسل کے اعلیٰ عہدیداروں سے طویل ملاقات کی جس میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع پر تبادلہ خیال ہوا، لیکن اس ملاقات کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

امریکا کے تین سرکاری ذرائع کے مطابق واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی طیارے اور دیگر عسکری سازوسامان تعینات کر رہا ہے۔ اب تک امریکا نے اسرائیل کو میزائل ڈیفنس کے ضمن میں تکنیکی مدد دی ہے، لیکن براہ راست کسی حملے میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔

مزید جانیں: ایران اسرائیل جنگ، کب کیا ہوا؟