April 13, 2025 12:38 pm

English / Urdu

Follw Us on:

مریم نواز کے اشتہارات یا خبریں؟ صحافت کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اشتہاری مہم عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی ایک اور کوشش ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اشتہاری مہم عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی ایک اور کوشش ہے؟

پنجاب حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے اخبارات کے فرنٹ پیجز پر شائع کیے گئے اشتہارات صحافتی اصولوں اور میڈیا کی غیرجانبداری پر نئی بحث چھیڑ چکے ہیں۔ یہ اشتہارات دیکھنے میں روایتی خبروں جیسے تھے، لیکن حقیقت میں مکمل طور پر حکومتی بیانیے پر مبنی تھے، جس میں کارکردگی کے دعوے، منصوبوں کے اعلانات اور وزیر اعلیٰ کے بیانات شامل تھے۔

 

عالمی صحافتی معیارات کے مطابق خبروں اور اشتہارات میں واضح فرق ہونا ضروری ہے تاکہ عوام کسی بھی پروپیگنڈا یا جانبدارانہ معلومات کا شکار نہ ہوں۔ تاہم، جب اشتہارات کو خبر کی طرز پر پیش کیا جائے تو یہ میڈیا کی ساکھ اور اس کے بنیادی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔

 

صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ردعمل

تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا:
“چند پیسے اضافی کمانے کے لیے اشتہارات کو خبروں کی طرح چھاپ دیا جاتا ہے اور پھر حیران ہو کے پوچھتے ہیں کہ اب عوام اخبار کیوں نہیں پڑھتے؟”

معروف اینکر شفاعت علی نے قانونی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے سوال اٹھایا:

“کیا اشتہار کو خبروں کی طرح چھاپنا جعلی خبریں پھیلانے کے مترادف نہیں؟ آج جن اخبارات نے فرنٹ پیج پر اس اشتہار کو چھاپا ہے، ان پر پیکا لاگو نہیں ہوتا؟”

 

 

صحافی ریاض الحق نے اسے طنزیہ انداز میں “ایک اور دن، ایک اور مکمل صفحہ پریس ریلیز!” قرار دیا۔

 

سیاسی تجزیہ کار سعید بلوچ نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ رات انہیں بتایا گیا تھا کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر 60 صفحات کے اشتہارات تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان کا سوال تھا:
“پنجاب حکومت نے ایسا کیا کر دیا ہے جو ساٹھ صفحات اشتہار کی صورت میں بانٹے جا رہے ہیں؟”

 

 

 

صحافی خرم اقبال نے مختلف اخبارات کے سکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے کہا:
“مریم حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی دکھانے کے لیے خزانے کے مُنہ کھول دیئے، اخبارات کے فرنٹ پیج پر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ خبریں نہیں، پورے صفحے کے اشتہارات ہیں، ایسی صحافت کو کیا نام دیں؟”

 

کیا یہ اشتہاری مہم عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے؟

یہ معاملہ اس لیے بھی متنازع بنا ہے کہ چند ماہ قبل عام انتخابات سے صرف چند روز قبل اخبارات میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی تشہیری مہم چلائی گئی تھی، جسے اپوزیشن اور کئی صحافیوں نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا تھا۔

 

اب جب کہ پنجاب حکومت کی سالگرہ کے موقع پر یہی طرز عمل دہرایا گیا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اشتہاری مہم عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی ایک اور کوشش ہے؟

 

عالمی صحافتی معیارات اور پاکستانی میڈیا

عالمی صحافتی تنظیموں جیسے Reporters Without Borders (RSF)، Committee to Protect Journalists (CPJ) اور Society of Professional Journalists (SPJ) کے اصولوں کے مطابق میڈیا کا کام عوام کو درست، غیرجانبدار اور قابل تصدیق معلومات فراہم کرنا ہے۔

SPJ کے Ethical Journalism Guidelines میں کہا گیا ہے کہ:

خبروں اور اشتہارات میں واضح فرق ہونا چاہیے تاکہ عوام کسی جانبدارانہ بیانیے کا شکار نہ ہوں۔

پیسے لے کر خبروں کی شکل میں اشتہار شائع کرنا صحافتی بددیانتی ہے کیونکہ یہ عوام کو گمراہ کر سکتا ہے۔

 

حکومتی بیانیے کو بغیر کسی تنقیدی جائزے کے پیش کرنا میڈیا کی غیرجانبداری پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔

 

پاکستانی میڈیا کو بھی انہی عالمی معیارات کو اپنانا ہوگا تاکہ عوام کو حقیقت اور پروپیگنڈا کے درمیان فرق کرنے میں دشواری نہ ہو۔

 

کیا پاکستانی میڈیا اپنی غیرجانبداری کھو رہا ہے؟

یہ معاملہ صرف پنجاب حکومت تک محدود نہیں، بلکہ ماضی میں مختلف حکومتیں اس طرح کی تشہیری مہمات چلاتی رہی ہیں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے یا محض حکومتوں کی جانب سے اپنی کارکردگی دکھانے کا ایک روایتی انداز؟

 

کیا میڈیا کو اشتہارات کے ذریعے حکومتوں کے بیانیے کو فروغ دینے کا ذریعہ بننا چاہیے یا اسے اپنی غیرجانبداری اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنا چاہیے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج پاکستان میں آزاد اور ذمہ دار صحافت کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہو چکے ہیں۔

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس