Follw Us on:

چین کی فوجی مشقوں پر تائیوان کا شدید ردعمل، بیجنگ نے اسے معمول قرار دے دیا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
چین کی فوجی مشقوں پر تائیوان کا شدید ردعمل، بیجنگ نے اسے معمول قرار دے دیا

چین کی وزارت دفاع نے تائیوان کے قریب حالیہ فوجی مشقوں کو محض “روٹین” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تائیوان کو شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ تائیوان نے ان مشقوں کو نہ صرف خطرناک اور اشتعال انگیز قرار دیا بلکہ اسے تجارتی پروازوں اور شپنگ کے لیے بھی خطرہ بتایا۔

تائیوان کی حکومت نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ چین نے تائیوان کے جنوب مغربی حصے میں ایک “فائرنگ” زون قائم کیا ہے، جو کاہو شیونگ اور پنگ ٹنگ کے اہم علاقوں کے قریب واقع ہے۔

تائیوان نے اس اقدام کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین نے اس کی کسی بھی طرح کی پیشگی اطلاع دیے بغیر یہ مشقیں شروع کیں، جس سے علاقے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔

چین کی وزارت دفاع کے ترجمان ‘وو جیان’ نے ایک روزانہ بریفنگ میں تائیوان کی شکایات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “تائیوان کے حکام فوجی مشقوں کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مزید توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔”

چین نے یہ بھی کہا کہ مشقوں کا مقصد صرف فوجی تیاری کو بہتر بنانا ہے اور ان میں کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں ہے۔

تائیوان کے دفاعی حکام کے مطابق 26 فروری کی صبح سے لے کر 27 فروری کی صبح تک انہوں نے 45 چینی جنگی طیاروں اور 14 بحری جہازوں کو تائیوان کے ارد گرد دیکھا۔

یہ بھی پڑھیں: شام بشار الاسد کے دور میں ہزاروں افراد کی اذیت و قتل پر رپورٹ شائع ہوگئی

ان میں سے سات جنگی جہاز چین کے اعلان کردہ “فائرنگ زون” میں پائے گئے جو تائیوان کے ساحل سے 40 ناٹیکل میل کے فاصلے پر تھا۔ تاہم تائیوان نے واضح کیا کہ اس دوران چین کی طرف سے کسی قسم کی براہ راست فائرنگ کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

تائیوان کے حکام نے بتایا کہ اس بار چین کی فوجی سرگرمیاں معمول سے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہیں اور ان میں اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا کہ مشقوں کے بارے میں کسی کو اطلاع دی گئی ہو۔

یہ بات انتہائی نایاب اور غیر متوقع تھی کہ جس پر تائیوان کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ “چین کی فوجی سرگرمیاں اس بات کی غماز ہیں کہ چین کی طرف سے یہ ایک غیر ضروری اقدام تھا جس سے علاقے میں استحکام میں مزید خلل پڑا۔”

امریکا نے ہمیشہ تائیوان کی حمایت کی ہے اور چین کے ساتھ کسی بھی زبردستی سے تائیوان کی حیثیت تبدیل کرنے کے مخالف ہے۔

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جب سوال کیا گیا کہ آیا امریکا کبھی چین کو تائیوان پر طاقت سے قابض ہونے کی اجازت دے گا تو انہوں نے اس سوال پر کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم، امریکی وزیر خارجہ ‘مارکو روبیو’ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکا کی پالیسی واضح ہے اور وہ تائیوان کے خلاف کسی بھی زبردستی اقدام کو رد کرے گا۔

آئندہ ہفتے چین کی سالانہ پارلیمانی نشست ہو رہی ہے جس میں چین اپنے دفاعی بجٹ کا اعلان کرے گا۔ چین کا پارلیمانی اجلاس نہ صرف ملکی سیاست کے لیے اہمیت کا حامل ہے بلکہ تائیوان کے لیے یہ ایک نیا خطرہ ہو سکتا ہے۔

 3 مارچ کو چین کی “اینٹی سی سیکشن” قانون کی بیسویں سالگرہ ہے، جو چین کو تائیوان کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے، اگر تائیوان کی آزادی کی کوششیں کی جائیں۔ یہ قانون ابھی تک مبہم ہے لیکن اس کی موجودگی علاقے میں کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے۔

تائیوان کے حکام نے اس موقع پر کہا ہے کہ وہ اس بات کے لیے پوری طرح تیار ہیں کہ چین کے خلاف کسی بھی قسم کے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے، خاص طور پر اس وقت جب چین کی فوجی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں۔

ایک تائیوانی عہدیدار نے کہا کہ “ہم نے بدترین صورتحال کے لیے بہترین تیاری کر رکھی ہے اور اگر چین نے اپنی دھمکیوں میں اضافہ کیا، تو ہم اس کا مناسب جواب دیں گے۔”

یہ بھی پڑھیں: ہانگ کانگ میں سابق قانون ساز سمیت چھ افراد کو قید کی سزا

اس ہفتے تائیوان نے ایک چینی مال بردار جہاز کو حراست میں لیا تھا جس پر الزام تھا کہ اس نے ایک زیر سمندر کیبل کو نقصان پہنچایا تھا۔

تائیوان کی وزارت انصاف نے اس جہاز کے چینی کپتان کو حراست میں لے لیا اور اس کے ساتھی عملے کو تائیوان چھوڑنے سے روک دیا۔

چین نے اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ زیر سمندر کیبل کا نقصان معمول کی بات ہے اور اس میں کسی بھی جانی نقصان کی نیت نہیں تھی۔

چین کی فوجی مشقوں کے حوالے سے تائیوان کی تشویش اور چین کا اسے معمولی کارروائی قرار دینا اس بات کا غماز ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر چین کے اقدامات پر تنقید جاری ہے اور تائیوان کی حکومت اپنی فوجی تیاریوں کو مزید مضبوط کر رہی ہے تاکہ چین کی کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اب جیسے جیسے چین کی پارلیمنٹ کا اجلاس قریب آ رہا ہے، دنیا بھر کی نظریں اس پر ہیں کہ چین کی اگلی حکمت عملی کیا ہوگی۔

مزید پڑھیں: استنبول میں آج روسی اور امریکی وفد کی ملاقات کیا اثرات لائے گی؟

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس