کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا نے تھائی لینڈ میں گزشتہ ایک دہائی سے زیر حراست 48 ایغور مسلمانوں کو اپنے ممالک میں بسانے کی پیشکش کی تھی، تاہم بینکاک نے چین کے ردعمل کے خوف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ نتیجتاً، گزشتہ ہفتے ان افراد کو خفیہ طور پر چین کے حوالے کر دیا گیا۔
تھائی لینڈ نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ اس نے انسانی حقوق اور ملکی قوانین کے مطابق کارروائی کی ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے ان افراد کو چین نہ بھیجنے کی درخواست کی تھی۔
ایغور مسلمان، جو زیادہ تر چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں آباد ہیں، کئی دہائیوں سے چینی حکومت کے جبر اور سخت پالیسیوں کا شکار ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بیجنگ پر ایغور نسل کشی، جبری مشقت، مذہبی آزادی پر قدغن اور بڑے پیمانے پر حراستی مراکز قائم کرنے جیسے الزامات عائد کرتی ہیں، تاہم چین ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا ہے۔
تھائی لینڈ کے نائب وزیر اعظم نے پیر کے روز دعویٰ کیا کہ کسی بھی ملک نے ایغور قیدیوں کو پناہ دینے کی باضابطہ پیشکش نہیں کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، “ہم نے 10 سال سے زیادہ انتظار کیا اور میں نے کئی بڑے ممالک سے بات کی، لیکن کسی نے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ 2006 سے وسط 2023 تک حکومتی عہدے پر نہیں تھے، اس لیے ان کے حالیہ بیان پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ امریکہ نے 48 ایغور مسلمانوں کو اپنے ملک میں بسانے کی پیشکش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، “امریکہ نے کئی سالوں تک تھائی لینڈ کے ساتھ مل کر اس صورتحال سے بچنے کی کوشش کی، اور بارہا ان قیدیوں کو کسی محفوظ ملک میں بسانے کی پیشکش کی، جس میں ایک موقع پر امریکہ بھی شامل تھا۔”
کینیڈا نے بھی ان ایغور مسلمانوں کو پناہ دینے کی پیشکش کی تھی، جس کی تصدیق چار مختلف ذرائع، بشمول سفارتکاروں اور معاملے سے براہ راست واقف افراد، نے کی ہے۔ ان میں سے دو ذرائع کے مطابق آسٹریلیا نے بھی ان قیدیوں کو پناہ دینے کی خواہش ظاہر کی تھی، تاہم تھائی لینڈ نے چین کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے خوف سے ان پیشکشوں کو قبول نہیں کیا۔
یہ پہلی بار ہے کہ یہ تفصیلات سامنے آئی ہیں، کیونکہ اس معاملے پر ماضی میں کوئی باضابطہ رپورٹنگ نہیں کی گئی تھی۔ تاہم، ان معلومات کو فراہم کرنے والے تمام ذرائع نے معاملے کی حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
تھائی لینڈ اور چین کی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے کسی بھی تبصرے سے گریز کیا، جبکہ کینیڈا کے محکمہ امیگریشن کے ایک ترجمان نے کہا کہ وہ انفرادی معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
آسٹریلیا کے محکمہ خارجہ و تجارت نے وزیر خارجہ پینی وونگ کے اس بیان کی جانب اشارہ کیا، جس میں انہوں نے جمعہ کے روز تھائی لینڈ کے فیصلے سے سخت اختلاف کا اظہار کیا تھا۔
چینی سفارتخانے نے بینکاک میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ “یہ 40 چینی غیر قانونی مہاجر تھے، جنہوں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا تھا۔ اب وہ 10 سال بعد اپنے خاندانوں سے دوبارہ مل گئے ہیں۔”
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے جن 40 ایغور مسلمانوں کو چین بھیجا گیا، ان کے علاوہ مزید پانچ افراد ایک مجرمانہ مقدمے کی سماعت کے باعث تاحال تھائی لینڈ کی جیل میں ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق، باقی تین افراد کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔