امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یوکرینی صدر نے انہیں خط لکھا ہے۔
منگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انہیں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں زیلنسکی نے روس اور یوکرین جنگ کے حل کے لیے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
ٹرمپ نے کانگریس سے خطاب کے دوران کہا کہ “یوکرین دیرپا امن کے لیے جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار ہے۔ یوکرین کے لوگوں سے زیادہ کوئی بھی امن نہیں چاہتا۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ روس کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں اور انہیں مثبت اشارے ملے ہیں کہ روس بھی امن کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “کیا یہ خوبصورت نہیں ہوگا؟ یہ وقت ہے کہ اس پاگل پن کو روکا جائے، یہ قتل و غارت ختم کی جائے، اور اس بے معنی جنگ کو اختتام تک پہنچایا جائے۔ اگر آپ جنگیں ختم کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو دونوں فریقوں سے بات کرنی ہوگی۔” تاہم، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کریں گے۔

یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ٹرمپ نے یوکرین کے لیے امریکی فوجی امداد روک دی ہے۔ اس اقدام کو امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس میں روس کے ساتھ زیادہ مفاہمت پر زور دیا جا رہا ہے۔
زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے کہا، “میری ٹیم اور میں صدر ٹرمپ کی مضبوط قیادت میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ دیرپا امن حاصل کیا جا سکے۔” تاہم، انہوں نے امریکی فوجی امداد کی معطلی پر براہ راست تبصرہ نہیں کیا۔
ان کا بیان اس پس منظر میں آیا ہے جب وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر امریکی حمایت کے لیے ناکافی شکریہ ادا کرنے کا الزام لگایا تھا۔ زیلنسکی نے اپنے بیان میں کہا، “ہم واقعی اس بات کی قدر کرتے ہیں کہ امریکا نے یوکرین کی خودمختاری اور آزادی کو برقرار رکھنے میں کتنی مدد کی ہے۔”
زیلنسکی نے ایک ممکنہ امن معاہدے کے لیے اپنی تجاویز بھی پیش کیں، جس میں پہلا قدم قیدیوں کی رہائی اور روس کی جانب سے ہوائی و سمندری حملے روکنے کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا، “اگر روس ایسا کرتا ہے، تو ہم تیزی سے اگلے تمام مراحل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ایک مضبوط حتمی معاہدے پر متفق ہونے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔”