شام کی ساحلی علاقوں میں حالیہ فرقہ وارانہ قتل و غارت کی لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب اس کا الزام ترکی کی حمایت یافتہ مسلح گروپوں پر عائد کیا جا رہا ہے۔
کردوں کی قیادت میں شامی جمہوری فورسز (SDF) کے کمانڈر ‘مازلوم عبدی’ نے اتوار کے روز ایک بیان میں شام کے عبوری صدر ‘احمد الشعرا’ سے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
عبدی نے کہا کہ ان فسادات میں ترکیہ کی حمایت یافتہ مسلح تنظیمیں اور اسلامی انتہا پسند قوتیں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
مازلوم عبدی نے عالمی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کو دیے گئے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ “ہم عبوری صدر احمد الشعرا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان قتل عام کے پیچھے چھپے ہوئے مجرموں کے خلاف کارروائی کریں اور ان کے کردار کو بے نقاب کریں۔”
ان کا کہنا تھا کہ شام کے ساحلی علاقوں میں ہونے والی یہ خونریزی ایک وسیع تر تنازعہ کا حصہ ہے جس میں سرکاری فوج کے سابق افسران اور ترکیہ کی حمایت یافتہ فورسز کے درمیان خونریز جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
یہ فسادات جمعرات کے روز ایک طویل عرصے سے جاری لڑائی کے بعد شدت اختیار کر گئے جب شام کے مختلف علاقوں سے ہزاروں مسلح افراد ساحلی علاقوں میں جمع ہو گئے تاکہ نئے شامی حکومتی فورسز کی مدد کر سکیں۔
علامی میڈیا کے مطابق ان جھڑپوں میں کم از کم 200 شامی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل حماس سے مذاکرات کے لیے راضی: پیر کو اسرائیلی وفد دوحہ جائے گا
شام کے امن کی حالت مزید پیچیدہ ہو چکی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیم “شامی آبزرویٹری” نے بتایا کہ اس خونریز جھڑپ میں ایک ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
دوسری جانب ترکیہ کی وزارت دفاع نے عبدی کے الزامات پر خاموشی اختیار کی اور شامی حکومت کی جانب سے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
حالیہ برسوں میں کرد فورسز اور ترکیہ کی حمایت یافتہ گروپوں کے درمیان شمالی شام میں مسلسل جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
مازلوم عبدی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ “نئے شامی فوج کی تشکیل میں کچھ گروہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور داخلی حسابات کو نمٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
یہ بیان اس وقت آیا جب عبوری صدر احمد الشعرا نے جنوری میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد نئی شامی فوج کے قیام کے بارے میں اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ احمد الشعرا کے قیادت میں ہونے والی اس نئی فوج کی تشکیل میں وہ تمام لوگ شامل ہوئیں جنہوں نے بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے لڑائی کی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا عبوری حکومت ان طاقتور مسلح گروپوں کو قابو کر سکے گی جو شام میں خانہ جنگی کے اس اندھیرے میں اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں یا یہ خونریزی جاری رہے گی۔
شام کے عوام کی امیدیں ایک نئی سیاسی تبدیلی اور امن کی طرف ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے گھمبیر نتائج کا سامنا ابھی تک کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ’88 یوکرینی ڈرونز مار گرائے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا’ روسی حکام