امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کو 30 روز کے لیے بند کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کے جواب میں یوکرین نے اس تجویزکو قبول کر لیا اور روس نے اس تجویز کو نہ مکمل معاہدہ قرار دے دیا ، برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ پیوٹن کو یوکرین میں امن کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔
عالمی نشریاتی ادارہ سی این این کے مطابق رضاکاروں کے اتحاد کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسٹارمر نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کے واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ یوکرین امن کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے غیر مشروط 30 روزہ جنگ بندی کو تسلیم کر لیا ہے،جبکہ پیوٹن اسے طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں.
اسٹارمر نے واضح کیا کہ اگر پیوٹن واقعی امن کے خواہاں ہیں تو انہیں یوکرین پر اپنے حملے بند کرنا ہوں گے اور جنگ بندی پر متفق ہونا ہوگا،میرا خیال ہے کہ جلد یا بدیر انہیں مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہوگا اور سنجیدہ بات چیت میں شامل ہونا ہوگا ۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا جب یوکرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت یافتہ 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی، جبکہ روس کا ردعمل مبہم رہا۔ پیوٹن نے کہا کہ “ہم تجویز سے اتفاق کرتے ہیں،” لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ معاہدہ مکمل نہیں ہے۔
ڈاؤننگ اسٹریٹ کے مطابق، اسٹارمر نے یورپی اور نیٹو اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ روس پر اقتصادی دباؤ بڑھائیں تاکہ پیوٹن کو مذاکرات کے لیے مجبور کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیوٹن کو جنگ بندی کی تجویز کے ساتھ “چالاکی نہیں کرنے دی جا سکتی۔”
اجلاس میں تقریباً 25 ممالک شامل تھے، جن میں یورپی اقوام، یورپی یونین کمیشن، نیٹو، کینیڈا، یوکرین، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل تھے۔ برطانوی وزیراعظم نے اس موقع پر اتحادیوں کو یوکرین میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے طویل مدتی حمایت جاری رکھنے پر زور دیا۔
دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ انہیں روس اور یوکرین کے درمیان ممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے کافی اچھی خبریں ملی ہیں، تاہم انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے دونوں ممالک کے ساتھ بہت اچھی بات چیت کی ہے اور پیر تک مزید معلومات سامنے آ سکتی ہیں۔
جمعرات کو پیوٹن نے ماسکو میں امریکی خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف سے ملاقات کی، جسے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے محتاط امید قرار دیا۔ تاہم، مبصرین کا خیال ہے کہ پیوٹن جنگ بندی پر مذاکرات میں تاخیر کر رہے ہیں تاکہ مغربی روسی علاقے کورسک پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکیں، جو کیف کے پاس واحد علاقائی سودے بازی کا ہتھیار ہے۔
ادھر، جنگ کے دوران فضائی حملے بھی جاری رہے۔ یوکرینی حکام کے مطابق، روس نے رات بھر یوکرین پر 178 ڈرونز اور دو بیلسٹک میزائل داغے، جس کے نتیجے میں کم از کم دو افراد ہلاک اور 44 زخمی ہو گئے۔
روسی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ اس کے فضائی دفاعی نظام نے رات بھر 126 یوکرینی ڈرونز کو مار گرایا، تاہم یہ نہیں بتایا کہ کتنے ڈرونز دفاعی نظام سے بچ کر اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
یوکرین میں جنگ بندی کی کوششوں کے درمیان عالمی سفارت کاری تیز ہو رہی ہے، لیکن پیوٹن کے غیر واضح ردعمل نے مذاکرات کے مستقبل پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر اور ان کے اتحادی روس پر دباؤ بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ پیر تک مزید پیش رفت کی توقع کر رہی ہے۔ تاہم، زمینی حقائق اور جاری حملے اس تنازع کے فوری حل کے امکانات کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔