جب آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کی بات ہوتی ہے تو اکثر ذہن میں ایک خوفناک منظرنامہ آتا ہے جہاں مشینیں انسانوں کی جگہ لے رہی ہیں اور بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے؟ یا پھر حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور متوازن ہے؟ یہ سوال آج کل ہر اس شخص کے ذہن میں ہے جو ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ رہا ہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی کوئی نیا رجحان نہیں۔ صنعتی انقلاب کے دوران بھی مشینوں نے ہاتھوں سے کی جانے والی کئی ملازمتوں کو ختم کر دیا تھا، لیکن ساتھ ہی نئے مواقع بھی پیدا ہوئے تھے۔ آج آرٹیفیشل انٹیلیجنس اسی طرز پر آگے بڑھ رہی ہے۔ مختلف صنعتی اور سروس سیکٹرز میں خودکار نظاموں کے متعارف ہونے سے بے شمار کام جو پہلے انسانوں کے ذریعے کیے جاتے تھے، اب مشینوں کے سپرد ہو رہے ہیں۔
کئی تحقیقی رپورٹس کے مطابق، اے آئی کی ترقی سے کچھ ملازمتیں ختم ہوں گی، لیکن اس کے ساتھ ہی نئی نوکریوں کے دروازے بھی کھلیں گے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر ساجد حسین کہتے ہیں، ”یہ درست ہے کہ اے آئی کچھ روایتی نوکریوں کو ختم کر سکتی ہے، خاص طور پر وہ کام جو دہرائے جانے والے اور مخصوص اصولوں کے تحت کیے جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ نئی صنعتوں کو بھی جنم دے گی، جن میں زیادہ تخلیقی اور تجزیاتی مہارتوں کی ضرورت ہو گی۔”
سب سے زیادہ خطرہ ان شعبوں کو ہے جہاں دفتری کام زیادہ ہے، جیسے ڈیٹا انٹری، اکاؤنٹنگ، کسٹمر سروس، اور مینوفیکچرنگ۔ کئی بڑی کمپنیاں اب خودکار چیٹ بوٹس کا استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے کسٹمر سپورٹ کے روایتی نمائندوں کی ضرورت کم ہو رہی ہے۔ لندن میں قائم ایک تحقیقاتی ادارے کے مطابق، آئندہ 10 سالوں میں اے آئی کے باعث تقریباً 30 فیصد ملازمتیں ختم ہونے کا امکان ہے۔
لیکن ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے اے آئی کے ماہر، فہد قریشی، جو ایک عالمی ٹیکنالوجی فرم سے وابستہ ہیں، اس پر ایک مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”یہ کہنا غلط ہوگا کہ اے آئی صرف نوکریاں ختم کر رہی ہے۔ اصل میں یہ ملازمتوں کی نوعیت کو تبدیل کر رہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز کے ماہرین، ڈیٹا سائنسدانوں، مشین لرننگ انجینئرز، اور اے آئی ایثکس کے ماہرین کی طلب میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔”
جہاں ایک طرف اے آئی مزدور طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، وہیں دوسری طرف اس نے مختلف فیلڈز میں نئی راہیں بھی کھولی ہیں۔ صحت کے شعبے میں، اے آئی پر مبنی تشخیصی نظام ڈاکٹروں کی مدد کر رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے اے آئی کے ذریعے ذاتی نوعیت کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بھی، اے آئی سے چلنے والے الگورتھمز خبروں کی ترسیل اور تجزیہ کو بہتر بنا رہے ہیں۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی سارہ نذیر، جو ٹیکنالوجی اور معاشرتی اثرات پر تحقیق کر رہی ہیں، کہتی ہیں، ”اے آئی نے میڈیا انڈسٹری میں ہلچل مچا دی ہے۔ آج کئی نیوز ایجنسیز اے آئی کی مدد سے رپورٹس تیار کر رہی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحافیوں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آیا صحافی خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال سکیں گے یا نہیں۔”
نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ خود کو بدلتی ہوئی دنیا کے مطابق تیار کریں۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جن طلبہ کے پاس تخلیقی صلاحیتیں، جذباتی ذہانت، اور تکنیکی مہارتیں ہوں گی، وہ اے آئی کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باوجود ملازمتیں حاصل کر سکیں گے۔ اس کے برعکس، جو افراد پرانے انداز میں ہی نوکریوں کو تلاش کریں گے، انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کچھ ممالک میں حکومتیں پہلے ہی اس تبدیلی کے لیے تیاری کر رہی ہیں۔ جرمنی، جاپان، اور امریکہ میں نئے تعلیمی پروگرام متعارف کروائے جا رہے ہیں جو طلبہ کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھانے پر مرکوز ہیں۔ پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائیں تاکہ نئی نسل اس بدلتی دنیا میں اپنی جگہ بنا سکے۔
کیا اے آئی واقعی نوکریاں ختم کر دے گی؟ شاید یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ آنے والے سالوں میں ملازمتوں کی نوعیت ضرور تبدیل ہو گی۔ انسانوں کو ان تبدیلیوں سے گھبرانے کے بجائے خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جو زمانے کے ساتھ نہیں بدلتا، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔