23 مارچ کے واقعے کی ایک نئی موبائل فون ویڈیو نے اسرائیل کے اس مؤقف کو چیلنج کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایمبولینسوں اور فائر ٹرک پر گولیاں چلانے کا جواز موجود تھا۔ اس واقعے میں 15 امدادی کارکن شہید ہوئے تھے۔ ویڈیو فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) نے جاری کی ہے، جو اندھیرے میں چلتی گاڑیوں کو دکھاتی ہے جن پر ہیڈلائٹس اور ایمرجنسی فلیشنگ لائٹس روشن تھیں، جس کے کچھ ہی دیر بعد ان پر حملہ ہوتا ہے۔ پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ یہ فوٹیج ایک پیرامیڈک کے فون سے ملی، جسے بعد میں مردہ پایا گیا۔
ویڈیو میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ نشان زدہ گاڑیاں سڑک کنارے رکی ہیں، ان کی لائٹس جل رہی ہیں اور کچھ امدادی کارکن رضاکاروں کا لباس پہنے باہر نکلتے ہیں۔ جس موبائل سے یہ ویڈیو بنی، اس کی ونڈ اسکرین پر گولیوں کے نشانات بھی نظر آتے ہیں، اور پس منظر میں فائرنگ کی آوازیں کئی منٹ تک سنائی دیتی ہیں۔ ویڈیو بنانے والے کی آواز میں دعا کی جا رہی ہے، اور اسے بعد میں مارے گئے پیرامیڈکس میں سے ایک سمجھا گیا۔
یہ فون ایک ہفتے بعد اس کی لاش کے ساتھ ایک اتلی قبر سے ملا۔ مجموعی طور پر آٹھ پیرامیڈیکس، چھ سول ڈیفنس کے کارکن، اور اقوام متحدہ کا ایک ملازم مارے گئے، اور ان کی لاشیں تباہ شدہ گاڑیوں کے قریب ریت میں دبی ہوئی پائی گئیں۔

اسرائیلی فوج آئی ڈی ایف نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ان گاڑیوں پر کسی قسم کے ایمرجنسی سگنلز موجود نہیں تھے، لیکن ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد آئی ڈی ایف نے کہا کہ وہ اس واقعے کی مکمل اور گہرائی سے تحقیقات کرے گی۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں عسکریت پسند مارے گئے، لیکن نہ کوئی ثبوت دیا، نہ مزید تفصیل پیش کی کہ فوجی کن خطرات کا سامنا کر رہے تھے۔
واقعے کے ایک زندہ بچ جانے والے، پیرامیڈک منتھر عابد نے خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ گاڑیاں مکمل طور پر شناخت شدہ تھیں، اور ان پر اندرونی و بیرونی لائٹس روشن تھیں۔ انہوں نے کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ان کا کام صرف لوگوں کی جان بچانا ہے۔
اقوام متحدہ میں پی آر سی ایس کے صدر ڈاکٹر یونس الخطیب نے اس واقعے کو ظالمانہ جرم قرار دیتے ہوئے آزاد اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایک شہید پیرامیڈک کے آخری الفاظ کا حوالہ بھی دیا: “ماں مجھے معاف کر دو، میں صرف لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا، میں جان بچانا چاہتا تھا۔”
اس واقعے کے بعد سے ایک پیرامیڈک ابھی تک لاپتہ ہے۔