Follw Us on:

سمندری تنازع: کیا تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہونے جا رہی ہے؟

حسیب احمد
حسیب احمد
South china sea dispute

جنوبی چینی سمندر، جو نہ صرف عالمی تجارت کے لیے اہم ہے بلکہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے، جہاں اس سمندر میں قدرتی خزانہ چھپا ہے وہیں بیشتر ممالک کے درمیان سنگین تنازعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔

چین، ویتنام، فلپائن، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی جیسے ممالک اس سمندر پر اپنی ملکیت جتاتے ہیں اور ان کے دعوے ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔

چین کا سب سے بڑا دعویٰ اس کی “نو ڈیش لائن” کے تحت ہے جو 1947 میں جاری کیے گئے ایک نقشے پر مبنی ہے۔ یہ لائن جنوبی چینی سمندر کے وسیع حصے پر پھیلی ہوئی ہے اور چین اسے اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ اس کا حق اس علاقے پر سینکڑوں سال پرانا ہے جب کہ دیگر ملکوں کے لیے یہ دعویٰ غیر منطقی اور غیر قانونی ہے۔

دوسری جانب ویتنام، فلپائن اور دیگر ممالک چین کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقے تاریخ میں کبھی چین کے زیر اثر نہیں آئے۔

ویتنام کا دعویٰ ہے کہ اس کا ان علاقوں پر 17ویں صدی سے تسلط رہا ہے لیکن چین کی طاقتور فوجی موجودگی اور بحری گشت نے علاقے میں کشیدگی بڑھا دی ہے اور یہ تنازعہ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔

اس تنازعے نے کئی مرتبہ علاقائی جھڑپوں کی شکل اختیار کی ہے۔ 1974 میں چین نے ویتنام سے پیراسیل جزائر چھینے جس کے نتیجے میں 70 سے زائد ویتنامی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

اس کے بعد 1988 میں ایک اور جھڑپ ہوئی جس میں ویتنامی بحریہ کو شدید نقصان پہنچا۔ 2012 میں چین اور فلپائن کے درمیان اسکاربورو شول پر کئی ہفتوں تک کشیدگیاں جاری رہیں۔

حال ہی میں 2023 میں فلپائن نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ چین نے اس کی کشتیوں پر لیزر شعاعیں ڈالی ہیں جس سے کشتیوں کے عملے کی آنکھوں میں تکلیف ہوئی۔

ان واقعات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ سے بچنے کی کوششیں جاری ہیں اور عالمی طاقتیں بھی اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اس تنازعے میں صرف جنوبی ایشیا کے ممالک ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ امریکا، جو اس مسئلے میں نیوٹرل رہنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اپنی “فریڈم آف نیویگیشن” کارروائیوں کے تحت جنوبی چینی سمندر میں اپنی فوجی موجودگی بڑھاتا جا رہا ہے۔

چین کو یہ کارروائیاں اشتعال انگیز لگتی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔

اس سب کے علاوہ جاپان بھی اس مسئلے میں فریق بن چکا ہے حالانکہ اس کا براہ راست کوئی دعویٰ تو نہیں ہے لیکن جاپان نے فلپائن اور ویتنام کو سمندری تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

یہاں تک کہ عالمی سطح پر یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آیا اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے گا یا پھر سفارتی مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے گا۔

جنوبی چینی سمندر کی اہمیت صرف اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ یہاں کی ماہی گیری کی صنعت اور قدرتی وسائل بھی اس تنازعے کا حصہ ہیں۔

یہ سمندر دنیا بھر میں سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے والے علاقوں میں سے ایک ہے اور لاکھوں افراد کی روزگار کا ذریعہ ہے۔

اسی طرح اس سمندر میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہونے کا بھی امکان ہے جو کئی ممالک کے لیے اقتصادی طور پر اہم ہیں۔

اگرچہ اس علاقے کا مکمل قدرتی وسائل کا جائزہ نہیں لیا گیا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سمندر دنیا کے کچھ سب سے اہم قدرتی وسائل کا حامل ہو سکتا ہے جو اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔

جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی امن کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔

دنیا بھر کے ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ اس علاقے میں کشیدگی سے بچنا ضروری ہے لیکن اس کے لیے عملی حل کیا ہو گا یہ ایک بڑا سوال ہے۔

جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ نہ صرف اس علاقے کے ممالک کے لیے بلکہ پورے عالمی امن کے لیے ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ طاقتور ممالک کی شمولیت، قدرتی وسائل کا تنازعہ اور عالمی تجارت کی اہمیت اس علاقے کو خاص بنا دیتی ہے۔

اس تنازعے کا حل عالمی سفارتکاری اور سنجیدہ مذاکرات پر منحصر ہے اور یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ مسئلہ ایک عالمی جنگ کی شکل اختیار کرے گا یا اس کا کوئی پائیدار حل نکلے گا۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس