پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں کرپٹو کرنسی کے غیر قانونی کاروبار اور تجارت کو روکنے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو دو ماہ کے اندر ایک مکمل پالیسی تیار کرنی ہوگی۔
عدالت نے اس ہدایت کا اعلان درخواست گزار بیرسٹر حذیفہ احمد کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران کیا جس میں بتایا گیا کہ موجودہ ڈیجیٹل کرنسی کا تصور اب تک قانونی فریم ورک کی غیر موجودگی کی وجہ سے بغیر کسی نگرانی کے چل رہا ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2018 میں جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے ایسی آن لائن کاروباری سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے، لیکن مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اس کا استعمال بغیر کسی حکومتی نگرانی کے جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف کوچنگ سینٹرز اور ٹریننگ اکیڈمیاں جو کریپٹو کرنسی اور فاریکس ٹریڈنگ کی خدمات فراہم کر رہی ہیں بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، فیس بک، اور یوٹیوب کے ذریعے ان سرگرمیوں کی تشہیر بھی ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا امریکی ٹیرف کے جواب میں 125٪ ٹیرف لگانے کا اعلان، عالمی تجارت متاثر
درخواست گزار کے مطابق یہ غیر قانونی کاروبار نہ صرف ملکی سطح پر ٹیکس ریونیو کا ذریعہ بن سکتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خطرات بھی موجود ہیں۔

انہوں نے عدالت سے گزارش کی کہ ایسے اداروں اور اکیڈمیاں کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج ریگولیشنز کے تحت رجسٹر کیا جائے تاکہ انہیں قانونی کنٹرول میں لایا جا سکے۔
انہوں نے بیان کیا کہ یہ کاروبار قومی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان کا غلط استعمال دہشت گردی، جوئے اور دیگر ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل بلال درانی نے وفاقی حکومت کی طرف سے قانونی عمل کے دوران کی جانے والی پیشرفت کی تصدیق کی اور بتایا کہ حکومت اس وقت ایسے غیر قانونی کاروبار کو روکنے کے لیے مناسب قانون سازی کے عمل میں ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو دو ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک مکمل پالیسی تیار کرکے عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کرے۔
عدالت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور تاکید کی کہ غیر قانونی ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار اور فاریکس ٹریڈنگ میں ملوث اداروں پر فوری کارروائی کی جائے تاکہ ملکی معاشی نظام اور قومی سلامتی کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
عدالت نے متعلقہ حکام کو بھی ہدایت کی کہ وہ اس مسئلے پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں تاکہ جلد از جلد ایک مؤثر قانونی فریم ورک تیار کیا جا سکے۔