ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان کے دورافتادہ گاؤں “ہزرآباد” میں واقع ایک چھوٹے سے ورکشاپ پر نامعلوم حملہ آوروں نے دھاوا بول دیا۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں آٹھ پاکستانی مزدور گاڑیوں کی پالش، پینٹنگ اور مرمت کا کام کرتے تھے۔ یہ محنت کش لوگ، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے سرحد پار روزی کما رہے تھے۔
رات کی تاریکی میں حملہ آور آئے، بے رحمی سے مزدوروں کے ہاتھ پیر باندھے اور قریب سے گولیاں مار کر سب کو ہلاک کردیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق حملہ اس قدر اچانک ہوا کہ کسی کو بچ نکلنے کا موقع تک نہ ملا سکا۔
اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز جب جائے وقوعہ پر پہنچیں تو لاشیں خون میں لت پت زمین پر بکھری ہوئی تھیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ان 8 پاکستانیوں کے بہیمانہ قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ایرانی حکومت سے قاتلوں کی فوری گرفتاری و سزا کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پورے خطے کے لیے خطرناک ہے اور اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانی ہوگی۔
اس کے علاوہ وزیراعظم نے وزارتِ خارجہ اور ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو میتوں کی واپسی اور لواحقین سے رابطے کی ہدایت کی۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور تصدیق کے بعد باضابطہ بیان دیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے بھی واقعے پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔
اس واقعہ کے بعد اب تک کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر ابتدائی تحقیقات ایک ممکنہ شدت پسند گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو پاک-ایران سرحدی علاقوں میں سرگرم ہے اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ‘مذاکرات سے مطمئن’ ایران اور امریکا اگلے ہفتے پھر ملاقات کریں گے
دوسری جانب پاکستانی سفارتخانہ حرکت میں آ چکا ہے جبکہ تہران میں موجود سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ان کے نمائندے جائے وقوعہ پر پہنچ چکے ہیں تاکہ لاشوں کی شناخت، قانونی کارروائی اور متاثرہ خاندانوں کی مدد کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی اس واقعے پر شدید ردعمل دیا ہے اور ایرانی حکام سے فوری تحقیقات اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو نے اسے “انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ایسے بزدلانہ حملے دونوں ممالک کے تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہیں۔ ہم ایرانی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے منتظر ہیں تاکہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔”
اس سے قبل گزشتہ برس بھی سرحدی شہر سراوان میں نو پاکستانی مزدور اسی طرح قتل کر دیے گئے تھے۔ مسلسل حملوں نے پاکستانی مزدوروں کے اہلخانہ کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے، نہ صرف روزگار کا خواب بکھرتا نظر آ رہا ہے بلکہ اپنوں کو کھو دینے کا ڈر بھی ہر پل منڈلا رہا ہے۔
سیستان بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی، اسمگلنگ، اور نسلی کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ مگر اس حالیہ سانحے نے ثابت کر دیا کہ یہاں غیر ملکی مزدور بھی محفوظ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز کا اسپتال پر حملہ: بچوں، عورتوں سمیت درجنوں افراد شہید