پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دسویں ایڈیشن کا کراچی میں پہلا میچ، جہاں میدان میں چھکوں اور چوکوں کی برسات تھی مگر تماشائیوں کی عدم موجودگی نے ایونٹ کی مقبولیت پر اہم سوالات کھڑے کر دیے۔
نیشنل بینک اسٹیڈیم میں گزشتہ شب کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے درمیان کھیلا گیا ہائی اسکورنگ اور سنسنی خیز میچ، کرکٹ کے چاہنے والوں کے لیے ایک یادگار مقابلہ تھا مگر دلچسپی کی شدت صرف گیند اور بلے تک محدود رہی، اسٹینڈز میں بیٹھنے والے چند تماشائیوں کے علاوہ پورا اسٹیڈیم ویران تھا۔
یہ وہی کراچی ہے جسے ’کرکٹ کا شہر‘ کہا جاتا تھا جہاں ماضی میں ہر میچ ہاؤس فل ہوتا تھا مگر اس بار 32 ہزار کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں صرف تین ہزار کے لگ بھگ لوگ نظر آئے۔
کچھ جگہوں پر تو تماشائیوں کی تعداد سیکیورٹی اہلکاروں سے بھی کم محسوس ہوئی۔
میچ رات آٹھ بجے شروع ہوا لیکن شائقین کی آمد کا سلسلہ سات بجے کے بعد ہی سست روی سے شروع ہوا۔
گراؤنڈ میں بیٹھے چند تماشائی کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے مگر میدان کے باہر اور ٹی وی اسکرین پر دیکھنے والے لاکھوں شائقین اس خاموشی کو شدت سے محسوس کرتے رہے۔
میچ میں ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان نے 105 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جبکہ کراچی کنگز کے جیمز وِنس نے 101 رنز بناتے ہوئے ٹیم کو فتح کے قریب پہنچایا۔
اس کے علاوہ خوشدل شاہ کی جارحانہ 60 رنز کی اننگز نے بھی مقابلے میں جان ڈالی۔
آخرکار کراچی کنگز نے یہ میچ چار وکٹوں سے اپنے نام کر لیا مگر جیت کے اس لمحے میں بھی جشن کی وہ گونج سنائی نہ دی جس کی پی ایس ایل سے توقع کی جاتی ہے۔
سابق کپتان وسیم اکرم اور وقار یونس نے کمنٹری کے دوران خالی نشستوں کا ذکر کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا۔
وسیم اکرم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “یہ وہ پی ایس ایل نہیں جو ہم نے چند سال پہلے دیکھا تھا۔”
اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹکٹوں کی قیمتیں زیادہ تھیں؟ یا شائقین کا اعتماد لیگ پر سے اٹھ چکا ہے؟ کہیں سیکیورٹی خدشات یا مارکیٹنگ کی کمی تو ذمہ دار نہیں؟
وجوہات جو بھی ہوں مگر ایک بات واضح ہے کہ خالی اسٹیڈیم نے پی ایس ایل انتظامیہ کو ایک بڑا اشارہ دے دیا ہے کہ شائقین کی توجہ واپس حاصل کرنے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
پی ایس ایل صرف کرکٹ کا ایونٹ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کا ایک بڑا برانڈ ہے اور جب برانڈ پر لوگوں کا اعتبار کم ہونے لگے تو خطرے کی گھنٹی بج چکی ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل سیزن 10: چھ ایسے بالر جو سب سے زیادہ وکٹیں لے سکتے ہیں