مغربی بنگال کی سرزمین جمعے کے روز اچانک شعلہ جوالہ بن گئی، جب وقف ترمیمی بل کے خلاف پرتشدد مظاہروں نے پورے ضلع مرشدآباد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
جو احتجاج ایک پرامن مطالبے کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے آگ، آنسو گیس اور چیختی آوازوں میں بدل گیا۔
پولیس کے مطابق جھڑپوں میں تین افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک معصوم بچہ بھی شامل ہے۔
لمحہ بہ لمحہ بگڑتی صورتحال کے پیش نظر، ریاستی ہائی کورٹ نے وفاقی فورسز کی فوری تعیناتی کا حکم جاری کیا تاکہ حالات قابو میں لائے جا سکیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ نیا وقف بل مسلمانوں کی مذہبی خودمختاری پر کاری ضرب ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون شفافیت کو فروغ دینے کے لیے لایا گیا ہے لیکن عوام کا غصہ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ اب تک 118 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 15 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
شہر کے حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور ڈرونز کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بل کو “تاریخی قدم” قرار دیا ہے لیکن حزب اختلاف اسے فرقہ وارانہ ایجنڈے کی ایک نئی قسط سمجھ رہی ہے۔
راہول گاندھی نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “یہ محض ایک قانون نہیں، بلکہ پوری قوم پر حملہ ہے۔”
اس سے پہلے حکومت پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی حمایت کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے مسلم اقلیت کو حاشیے پر دھکیلنے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوامی غم و غصے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔
فی الحال مرشدآباد میں سکوت تو ہے مگر فضا میں بارود کی بو اب بھی موجود ہے۔
مزید پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل