Follw Us on:

زرعی ملک میں کسانوں پر حکومتی سرپرستی کا فقدان، گندم تیار مگر خریدنے والا کوئی نہیں

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد

ملک بھر میں گندم کی کٹائی کا موسم شروع ہو چکا ہے اور پنجاب سمیت کئی علاقوں میں کسان اپنی فصلیں میدانوں سے گاہنے میں مصروف ہیں۔ تاہم اس سال بھی حکومتی سطح پر گندم کی قیمت یا خریداری سے متعلق کوئی باقاعدہ پالیسی سامنے نہیں آ سکی، جس کے باعث کسان طبقہ شدید بے یقینی اور معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ ایک طرف فصل تیار ہے، دوسری طرف یہ واضح نہیں کہ اس کی فروخت کس نرخ پر ہوگی اور خریدار کون ہوگا۔ یہ صورتحال نہ صرف کاشتکاروں کی معاشی حالت پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ ملک کی زرعی معیشت میں موجود چیلنجز کو بھی نمایاں کر رہی ہے۔

کسانوں کی پریشانی اور اوپن مارکیٹ کا رحم و کرم

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کے مطابق کاشتکار کو اس سال بھی اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال بھی گندم کی سرکاری خریداری نہ ہونے کے باعث کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑا، اور یہی صورتحال اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ “آج کسان اپنی پیداوار کی لاگت بھی پوری نہیں کر پا رہا۔ بجلی، کھاد، بیج اور زرعی ادویات اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ کسان اپنے زیور بیچ کر کھیتوں میں سرمایہ لگا رہا ہے، لیکن بدلے میں اُسے مناسب قیمت نہیں ملتی کسان اتحاد کا مؤقف ہے کہ گندم کی موجودہ پیداواری لاگت تقریباً 3300 سے 3400 روپے فی من ہے، جب کہ اوپن مارکیٹ میں قیمت صرف 2200 روپے فی من تک ہے، یعنی فی من تقریباً 900 روپے کا خسارہ۔

سرکاری مؤقف: “اوپن مارکیٹ میں فروخت کی آزادی ہی حل ہے

پنجاب کے محکمہ خوراک کے ترجمان طلحہ ملک نے اس حوالے سے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت اس سال بھی گندم خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ “گزشتہ سال کی طرح کاشتکار اوپن مارکیٹ میں اپنی گندم جس قیمت پر چاہیں بیچ سکتے ہیں۔ جب حکومت خریداری نہیں کر رہی تو قیمت کا تعین بھی ممکن نہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بین الصوبائی گندم کی نقل و حمل پر پابندیاں ختم کر دی ہیں تاکہ کسان جہاں بہتر نرخ ملے، وہاں اپنی گندم فروخت کر سکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی صوبے سے گندم کی نقل و حمل اور مارکیٹ کی ڈی ریگولیشن کی منظوری دے دی ہے۔

کسان اتحاد کا مطالبہ:

کسان اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کا سرکاری نرخ 3900 روپے فی من مقرر کیا جائے، یہاں پر کسان اتحاد کی بات کی جائے تو ان میں بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ کا کہنا ہے کہ گندم کا کم از کم ریٹ 4000 روپے من مقررر کیا جائے  تاکہ کاشتکار کو کم از کم اپنی لاگت وصول ہو سکے۔ خالد کھوکھر   پریس کانفرنس کے دوران کہا: “یہ مسئلہ صرف کسانوں کا نہیں، بلکہ پورے ملک کی فوڈ سیکیورٹی کا ہے۔ اگر کسان کو نقصان ہوا تو ملکی معیشت کو دھچکا لگے گا۔ انھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کی مشیر سلمیٰ بٹ کے بیانات کو کسانوں کی “تضحیک” قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پورے ملک سے کسان اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔

پالیسی تضادات: پیداوار میں اضافہ، درآمدات بھی جاری

گزشتہ سال پاکستان میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، تاہم نگراں حکومت نے اس وقت 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی، حالانکہ نئی فصل تیار ہو چکی تھی اور ملک بھر کے گوداموں میں 23 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔

وفاقی حکومت کا مؤقف: “آئی ایم ایف معاہدے کے باعث خریداری ممکن نہیں

وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ، رانا تنویر حسین نے قومی اسمبلی میں تحریری رپورٹ جمع کرواتے ہوئے واضح کیا کہ آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط کے تحت وفاقی حکومت گندم نہیں خرید سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سال 2025 کی گندم کی پیداوار، سال 2026-25 کے لیے ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔

وزیر کے مطابق گندم کی درآمد یا برآمد کا فیصلہ مارکیٹ کی طلب کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے گندم پالیسی کی تشکیل کے لیے کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جس کے اب تک دو اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔

ماہرین کی رائے: “غیر یقینی پالیسیاں کسان کے لیے تباہ کن ہیں

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی کی غیر تسلسل اور کسان کو نجی مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ایک خطرناک رجحان ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں گندم جیسی بنیادی اجناس کی قیمت اور پالیسی کا واضح تعین نہ ہونا قومی سلامتی کا مسئلہ بن سکتا ہے۔

نتیجہ: بحران کا حل صرف فوری اور مربوط پالیسی سازی

موجودہ صورتحال میں حکومت کی “فری مارکیٹ” پالیسی ایک طرف کسان کو کمزور کر رہی ہے، تو دوسری طرف ملک کو خوراک کے معاملے میں غیر یقینی میں مبتلا کر رہی ہے۔ گندم کی قیمت کا اعلان، شفاف خریداری کا نظام، اور کسان کی پیداواری لاگت کو مدنظر رکھ کر پالیسی سازی ناگزیر ہو چکی ہے۔

اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو نہ صرف کسان سڑکوں پر ہوں گے بلکہ آئندہ سیزن میں گندم کی پیداوار پر بھی براہِ راست اثر پڑ سکتا ہے، جس کے نتائج مہنگائی، فوڈ سیکیورٹی اور دیہی معیشت کی تباہی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس