دنیا بھر میں خبروں کی فوری ترسیل کے لیے جانے جانے والے خبر رساں ادارے رائٹرز بلوم برگ اور ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) کو وائٹ ہاؤس کے قریبی حلقے سے نکال دیا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودہ انتظامیہ نے ایک فیصلہ کرتے ہوئے ان وائر سروسز کو پریس پول سے مستقل بنیادوں پر ہٹا دیا ہے جس سے صحافت کی آزادی پر ایک سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
وفاقی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے AP کو پریس پول سے خارج کر کے آزادی اظہار کی خلاف ورزی کی۔ تاہم، عدالت کے حکم کے باوجود وائٹ ہاؤس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اب نہ صرف AP بلکہ رائٹرز اور بلوم برگ جیسے ادارے بھی روزانہ کے پریس 1پول کا حصہ نہیں ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق اب ایک بڑا “روٹیشن سسٹم” متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں تقریباً 30 پرنٹ اور اخباری ادارے باری باری کوریج کا موقع پائیں گے۔
لیکن کیا اس “روٹیشن” کے پیچھے واقعی غیر جانب داری ہے؟ یا یہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد صدر ٹرمپ کے پیغامات کو صرف ان اداروں تک پہنچانا ہے جو ان کے مؤقف سے ہم آہنگ ہوں؟
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی حکومت بس اپنے امیر دوستوں کو اور امیر بنا رہی ہے، سابق امریکی صدر جو بائیڈن
رائٹرز کے ترجمان نے فیصلے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “دنیا بھر میں اربوں افراد رائٹرز کی خبروں پر انحصار کرتے ہیں جن میں ہزاروں مقامی و بین الاقوامی ادارے شامل ہیں۔ آزاد اور غیر جانب دار صحافت کسی بھی جمہوریت کا بنیادی ستون ہے اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایسی پابندیاں اسی ستون کو گرانے کے مترادف ہیں۔”
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اسے عوام کے ساتھ “ناانصافی” قرار دیا۔ ادارے کی ترجمان لارین ایسٹن نے کہا کہ “یہ قدم صحافت کے اس کردار کو دبانے کی کوشش ہے جو وہ ریاستی اداروں پر نگاہ رکھنے میں ادا کرتی ہے۔”
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رواں سال فروری میں AP کو اس وقت پریس پول سے نکالا گیا جب اس نے امریکی سرحد کے جنوب میں واقع پانی کے بڑے ذخیرے کو “گلف آف امریکا” کہنے سے انکار کیا۔
وائٹ ہاؤس کی نئی میڈیا پالیسی کے مطابق اب ہر روز پریس پول کے اراکین کا انتخاب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری، کیرولین لیویٹ، خود کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ صدر کا پیغام مخصوص ہدفی حلقوں تک پہنچے اور ایسے ادارے شریک ہوں جو متعلقہ مہارت رکھتے ہوں۔”
فی الحال عدالت کے حکم پر AP کو محدود رسائی تو حاصل ہو گئی ہے مگر مکمل بحالی کا فیصلہ اب عدالت میں زیر غور مقدمے کے فیصلے پر منحصر ہے، اس دوران وائٹ ہاؤس نے فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے۔
سیاسی و صحافتی حلقے اس پیش رفت کو میڈیا کی آزادی کے خلاف ایک منظم مہم قرار دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’وہ امتحان کی تیاری کر رہے تھے‘ تیونس میں اسکول کی چھت گرنے سے تین طلبا جاں بحق